کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 250
دس من عرق گلاب سے ایک قبر کو غسل[1] دیا ہے۔ پی جاؤ اس عرق گلاب کو تا کہ تمہاری رہی سہی غیرت بھی مر جائے۔ یہ حالت ہے ہمارے وزیروں کی یہ حالت ہے ہمارے حکمرانوں کی۔ ان حکمرانوں کے دور میں اگر رعایا ہتھوڑوں سے نہیں ڈرے گی تو اور کس سے ڈرے گی ؟ ڈرنا ہی چاہئے۔ اس بڑھیا نے مسلم ابن عقیل کو اندر جگہ دی۔ بیٹے نے کھٹ پٹ کی آواز سنی‘ پوچھا اماں کون ہے ؟ بڑھیا کہتی ہے کوئی نہیں۔ اس نے کہا مجھے آواز آئی ہے۔ اس نے کہا تیرا وہم ہے۔ بڑھیا چھپاتی ہے بیٹا اصرار کرتا ہے۔ آخر دروازہ کھولا دیکھا سامنے مسلم ابن عقیل بیٹھا ہے۔ بڑھیا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہنے لگی او ظالمو کل تک اس کے نام کے نعرے لگاتے اس کے ہاتھ پہ بیعت کرتے تھے آج اس کو مارنے کے لئے دوڑتے ہو۔ خدا کا خوف کرو یہ رسول کے نواسے کا نمائندہ اور رسول کے بھائی کا بیٹا ہے۔کوئی ظلم نہ کماؤ۔ اس نے جلدی سے آگے بڑھ کے ہاتھ کا بوسہ لیا۔ اس نے کہا میں تو جانوروں کے پیر چومنے والا ہوں یہ تو انسان ہے۔ میں تو بڑا فرمانبردار ہوں خدمت گزار ہوں۔ ہاتھ چومے پاؤں چومے۔ کہنے لگا ہمارے تو بھاگ جاگ اٹھے ہمارے گھر میں نرائن آگئی ہمارے گھر میں دیوتا آگیا۔ ماں بیچاری دھوکہ کھا گئی۔ اس نے کہا کسی کو بتلانا نہیں۔ کہنے لگا ماں ایسی بات کیا کرتی ہو۔ تھوڑی دیر گزری بیٹا وضو کرنے لگا۔ اس نے کہا کیا بات ہے ابھی تو فجر کی اذان بھی نہیں ہوئی؟ کہنے لگا ماں شکرانے کے طور پہ تہجد پڑھنے لگا ہوں۔ آج رسول کے نواسے کا ہر کارہ ہمارے گھر آیا ہے۔ ماں بڑی خوش ہوئی کہ آج تہجد پڑھنے لگا ہے۔ کہتا ہے ماں جی چاہتا ہے مسجد میں جا کے نفل پڑھوں اس مسجد میں جس مسجد کو اس کے چچا علی نے بنوایا ہے۔ ماں نے دروازہ کھولا وضو کر کے سیدھا گورنر ہاؤس پہنچا۔ عبید اللہ ابن زیاد کو کہنے لگا آؤ میں تمہارا شکار اپنے گھر میں پھنسا کے آیا ہوں۔ ان کی حالت یہ ہے۔ حضرت مسلم بن عقیل شہید ہوئے۔ قافلہ حسین مکہ سے رخصت ہو چکا ہے۔ چند منزل فاصلہ طے کیا حسین کو خبر ہوئی کہ
[1] معروف صوفی بزرگ علی ہجویری کی طرف اشارہ ہے۔ ان کی قبر کو ہر سال عرق گلاب سے غسل دیا جاتا ہے۔