کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 248
کی دیر تھی مسلم ابن عقیل نے دیکھا کہ صرف بتیس آدمی ساتھ رہ گئے ہیں اب ذرا اور آگے بڑھے۔ الارشاد شیخ مفید کی اعلام الوری طبرسی کی الفصول المھمہ ابن صباغ کی کشف الغمہ اربلی کی۔ تمہاری کتابیں اٹھاؤ۔ کوئی مقابلہ کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ تھوڑی دیر گزری مسلم ابن عقیل نے دیکھا کہ کوفہ کے بازاروں میں تن تنہا کھڑا ہے کوئی ساتھ باقی نہیں بچا۔ پردیسی اجنبی تنہا غریب الوطن کوفے کے راستوں کو بھی نہیں جانتا اب بھاگا۔ اس کی تو بالکل یہی مثال ہے کہ میرے جیسا آدمی شاد باغ میں آئے تم سارے بھاگ جاؤ تو میں کہاں جاؤں گا مجھے تو شاد باغ کا راستہ بھی نہیں آتا۔ کہاں جاؤں؟ مسلم ابن عقیل جائیں تو جائیں کہاں ؟ ادھر بھاگے ادھر بھاگے۔ آخر ایک گلی میں گھسے دروازے پہ دستک دی اس شیعہ نے جس نے موت کی بیعت کی ہوئی تھی حسین کے بھیا کے چہرے کو دیکھا اپنے کواڑ بند کر لئے۔ دوسرے دروازے پہ دستک دی اس نے دیکھا پھر کواڑ بند کر لئے۔ اسی طرح تیسرے چوتھے دروازے پہ دستک دی بھاگتے رہے پیچھے سپاہی بھاگ رہے ہیں تعاقب ہو رہا ہے۔ ایک جگہ پاؤں کو اندھیرے میں ٹھوکر لگی حسین کا بھائی منہ کے بل گرا دانت ٹوٹ گئے منہ سے خون کا فوارہ چھوٹ پڑا۔ کوئی شیعان علی میں سے خون پونچھنے کے لئے تیار نہیں ہوا۔ ساری رات مسلم ابن عقیل کوفہ کے بازاروں میں کوفیوں کی بے وفائی کا ذکر کرتے ہوئے گھومتے رہے کوئی پناہ دینے کے لئے تیار نہ ہوا۔ پیاس سے نڈھال ایک مکان کے دروازے پہ جا کے گر پڑے چیخ کی آواز گھر والوں تک پہنچی۔ ایک بڑھیا اندر سے باہر آئی دیکھا کہ مسلم ابن عقیل جس کے ہاتھ پر کل ہزاروں نوجوان حسین کے لئے موت کی بیعت کر رہے تھے آج زخمی پڑا پانی پانی چلا رہا ہے کوئی منہ میں پانی ڈالنے کے لئے تیار نہیں۔ جلدی سے اندر گئی روئی کا پھاہا لیا منہ سے خون صاف کیا پانی کے چھینٹے مارے۔ مسلم ابن عقیل کو ہوش آیا آنکھوں میں آنسو آگئے۔ کہنے لگے بڑھیا مجھ کو پناہ نہ دو فاطمہ کے بیٹے کو پیغام پہنچا دو کہ کوفے نہ آئے ان سے بڑی بے وفا شے کوئی نہیں ہے۔ کوئی ان کو جا کے کہہ دے حسین کو روک دے۔ میرے ساتھ جو ہو چکا ‘ہو چکا حسین پلٹ جائے۔ جن شیعوں نے اس کے باپ سے وفا نہیں کی تھی اس کے بھائی سے وفا نہیں کی تھی آج اس سے بھی وفا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔