کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 247
نہ پڑے۔ عبید اللہ بن زیاد اپنے چہرے پر ’’ڈھاٹا ‘‘باندھے کوفے کے بازاروں میں داخل ہوا۔ لوگوں کو حسین کا انتظار تھا انہوں نے سمجھا حسین آگیا ہے۔ سارا کوفہ باہر نکل آیا۔ جہاں سے گزرتے لوگ کہتے السلام علیک یا ابن رسول اللّٰه رسول کے بیٹے تجھ کو سلام ہو۔ انہوں نے سمجھا حسین آیا ہے۔ جب تک عبید اللہ ابن زیاد اپنے گورنر ہاؤس میں پہنچے بتیس ہزار کے قریب کوفی جمع ہو چکے تھے۔ حضرت مسلم بن عقیل کو پتہ چلا وہ بھی بھاگے ہوئے آئے کہ حسین آگیا ہے۔ ان کو تو پتہ نہیں کون آیا ہے۔ گورنر ہاؤس کے پاس جا کر جب کہ مسلم بن عقیل اور ان کے ساتھی بھی پاس تھے عبید اللہ ابن زیاد نے اپنے چہرے سے کپڑے کا پلو ہٹایا۔ لوگوں نے دیکھا کہ حسین کی جگہ عبید اللہ ابن زیاد آگیا ہے۔ اب عبید اللہ ابن زیاد نے بتیس ہزار شیعوں کو گھور کے دیکھا۔ صرف اٹھارہ سپاہی ساتھ تھے اور پلٹ کے کہنے لگا جس کو اپنی جان عزیز ہو ابھی پلٹ جائے وگرنہ کبریا کی کبریائی کی قسم ہے میں تمہاری بیویوں کو بیوہ اور تمہارے بچوں کو یتیم کر دوں گا۔ پلٹ جاؤ۔ اب ذرا سوچنے کی بات ہے اٹھارہ سپاہی اور وہ زمانہ نہیں تھا کہ پولیس والوں کے پاس جیپیں بندوقیں سٹین گنیں اور آنسو گیس کے آلات ہوں اور لوگ بیچارے نہتے بلکہ وہ زمانہ وہ تھا کہ پولیس والوں کے پاس بھی تلواریں اور عام لوگوں کے پاس بھی تلواریں تھیں دونوں کے پاس تلواریں تھیں۔ لیکن کوفے والوں کا حال پنجاب کی اس بستی کا سا تھا جس بستی میں ایک چور ایک لاٹھی لے کے آیا۔ پوری بستی والوں کو آگے لگا لیا۔ آگے آگے بستی والے بھاگ رہے ہیں اور پیچھے اکیلا چور بھاگ رہا ہے۔ صبح کو لوگوں نے پوچھا او تمہاری مت ماری گئی ہے تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ کہنے لگے کیا کریں ہم سارے گاؤں والے اکیلے چور اور لاٹھی دونوں تھے۔ یہ کوفے کے لوگوں کا حال تھا۔ اٹھارہ سپاہی اور بتیس ہزار جوان۔ اٹھارہ سپاہیوں کو دیکھ کے لوگوں نے کھسکنا شروع کیا۔ حضرت مسلم بن عقیل نے پیچھے مڑ کے دیکھا۔ دیکھا کہ بتیس ہزار میں سے بتیس سو باقی رہ گئے ہیں۔ کہا پکڑ لو اس گورنر کو۔ اس کی بوٹیاں اڑا دو۔ عبید اللہ ابن زیاد نے کہا کسی کی ماں نے بچہ جنا ہو تو آگے بڑھ کے تو دکھائے۔ یہ کہنے