کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 246
گرامی ہیں جن کا نام لے کر نبی نے ان کے لئے دعا کی اللھم علمہ القران وفقھہ فی الد ین اللہ عبد اللہ ابن عباس کو دین کی سمجھ عطا فرما۔ تیسرا یہ حضرت علی کی فوجوں کے کمانڈر انچیف رہے ہیں۔ تین حیثئتیں۔ عبد اللہ ابن عباس کو پتہ چلا بھاگے ہوئے آئے۔ حسین کی اونٹنی کی مہار تھام لی۔ فرمایا حسین کہاں جا رہے ہو ؟ فرمایا کوفے کے شیعوں نے بلایا ہے۔ فرمایا جن شیعوں نے تیرے باپ سے وفا نہیں کی تجھ سے وفا کیسے کریں گے ؟ نہ جاؤ۔ حسین رضی اللہ عنہ جانا ہے تو کسی اور جگہ جاؤ۔ اب حسین دانا اور بینا آدمی‘ انسٹھ سال کے پختہ عمر کے انسان‘ گرم و سرد جوشیلا۔ عبد اللہ بن عباس کو کہتے میں چچا میرے راستے سے ہٹ جاؤ‘ میں نے جو فیصلہ کر لیا ہے اس سے پلٹنے کے لئے تیار نہیں۔ حضرت ابن عباس نے کہا حسین ضی اللہ عنہ اگر مجھے معلوم ہو کہ میں تیرے اونٹ کے راستے میں لیٹ جاؤں تو تو رک جائے گا تو میں لیٹنے کے لئے تیار ہوں۔ مت جا۔ حسین ضی اللہ عنہ نے کہا چچا اب آگے اٹھے ہوئے قدم پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔ عبد اللہ بن عباس نے تاریخی الفاظ کہے فرمایا اگر تو نہیں رکتا تو میری پیشین گوئی سن لے میں تیری داڑھی کے بالوں کو خون میں رنگا ہوا دیکھ رہا ہوں۔ جنہوں نے تیرے بڑے بھائی اور تیرے باپ سے وفا نہیں کی وہ تجھ سے بھی وفا نہیں کریں گے۔ حسین اس کے باوجود چل نکلے۔ اب ادھر ماجرا دیکھئے کہ مسلم ابن عقیل کے ہاتھ پر بتیس ہزار سے زیادہ لوگوں نے موت کی بیعت کی۔ یزید کو پتہ چلا کوفے کے صوبے کے حالات خراب ہیں۔ اس نے پہلے گورنر کو تبدیل کر کے عبید اللہ ابن زیاد کو گورنر بنا کے بھیجا ‘صرف اٹھارہ آدمی اس کے ساتھ بھیجے۔ عین اس زمانے میں جبکہ کوفہ کی ہر گلی ‘ہر بازار اور ہر گھر میں حسین رضی اللہ عنہ کے نعرے لگ رہے تھے ان دنوں میں صرف اٹھارہ سپاہیوں کے ساتھ عبید اللہ ابن زیاد نے کوفہ میں قدم رکھا۔ اس زمانے میں عربوں کا دستور یہ تھا کہ پرانے پنجابیوں کی طرح سفر کرتے ہوئے اپنے چہرے پہ ’’ڈھاٹا ‘‘باندھ کے رکھتے تھے۔ جس طرح ہمارے دیہاتوں میں دیہاتی سفر کرتے ہوئے اپنی پگڑی کا پلو اپنے منہ پہ باندھ لیتے ہیں اسی طرح عربوں کا دستور تھا کہ چہرے پہ گرد و غبار