کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 245
چھپ کر مدینہ طیبہ سے نکل کر مکہ مکرمہ کی طرف آئے۔ کوفہ کے لوگوں کو علم ہوا۔ وہی کوفہ کے لوگ جو حضرت علی کی پارٹی کے لوگ تھے انہوں نے جناب حسین کی خدمت میں خط لکھے حسین تم نے بہت اچھا کیا یزید کی بیعت نہیں کی۔ آؤ ہم تیرے باپ کی پارٹی کے لوگ تجھ کو بلاتے ہیں کہ آؤ ہمارے پاس آجاؤ ہم تجھ کو اپنا حکمران مان لیتے ہیں۔ خط پہ خط آنے لگے ہر روز خط۔ ایک دن اتنے خط آئے کہ شیعہ مورخ نے لکھا ہے کہ حضرت حسین کی بوری بھر گئی۔ ہمارے پاس آجائیے۔ ہم آپ کو اپنا حکمران ماننے کے لئے تیار ہیں۔ آخر کار اٹھارہ ہزار کے قریب خط آئے۔ حضرت حسین نے سوچا کہ یہ لوگ اتنا مجبور کر رہے ہیں چلنا چاہئے۔ ساتھیوں نے مشورہ دیا خود نہ چلئے پہلے کسی کو اپنا نمائندہ بنا کے بھیجئے کہ حالات تو دیکھے حالات کیا ہیں؟
حضرت حسین ضی اللہ عنہ نے اپنے تایا حضرت عقیل ضی اللہ عنہ ‘جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی تھے‘ دس سال بڑے تھے‘کے صاحبزادے مسلم ابن عقیل کو کوفہ میں بھیجا کہ جاؤ جا کے حالات کا پتہ کرو۔ حالات کیا ہیں؟ بات لمبی ہو جائے گی مسلم ابن عقیل بھی نوجوان آدمی تھا۔ کوفہ کے لوگوں کے جذبات دیکھے ان کے بہلاوے میں آگئے۔ حسین کو خط لکھا حسین ضی اللہ عنہ انتظار نہ کرو ‘فصل پک کر تیار ہو چکی ہے‘ کاٹنے والے کا انتظار ہے۔ جلدی سے آجاؤ۔ اب ذرا جو بات بتلانا چاہتا ہوں وہ سن لو۔
جب حضرت حسین نے مکہ مکرمہ سے کوچ کا اعلان کیا اس دن ذی الحجہ کی آٹھویں تاریخ تھی اور کوئی حاجی یہاں ہو گا اس کو پتہ ہے کہ آٹھویں ذی الحج کو کیا ہوتا ہے؟
آٹھویں ذی الحج کو مکہ میں جو حاجی گئے ہوتے ہیں وہ حج کا احرام باندھتے ہیں اور احرام باندھ کے منی کی طرف نکلتے ہیں۔ آٹھ ذی الحج کو جب لوگ احرام باندھ کے منی کی طرف جا رہے تھے حضرت حسین نے اپنے قافلے کو لیا اور کوفہ کی طرف رخ کیا۔ لوگوں نے پوچھا حسین لوگ حج کے لئے جا رہے ہیں تم کہاں جا رہے ہو؟
فرمایا مجھ کو میرے باپ کے شیعہ نے بلایا ہے۔ میں کوفہ میں جا رہا ہوں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس جو حضرت حسین کے چچا تھے حضرت علی کے چچا کے بیٹے ان کو پتہ چلا۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس ان کو تین مقام حاصل ہیں ایک یہ کہ حسین کے چچا دوسرا یہ کہ یہ وہ شخصیت