کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 244
او میرے ساتھیو سن لو!ہمارے درمیان اورمعاویہ کے درمیان کوئی مذہبی اختلاف نہیں۔ بلکہ میں علی رضی اللہ عنہ یہ کہتا ہوں کہ میں معاویہ سے ایمان میں اتنا ہی برابر ہوں جتنا کہ عام مسلمان۔ میرے ایمان اور معاویہ کے ایمان میں کوئی فرق نہیں ہم سب برابر ہیں۔ لا نستزید ھم فی الایمان باللّٰه والتصد یق برسولہ ولا یستزید وننا نہ ان کا ایمان ہمارے سے کم ہے نہ ہمارا ایمان ان سے زیادہ ہے ان کا خدا وہی ہے جو ہمارا خدا ہے ان کا نبی وہی ہے جو ہمارا نبی ہے ان کی کتاب وہی ہے جو ہماری کتاب ہے۔ الامر الواحد الا ما اختلفنا فیہ من د م عثمان و نحن منہ براء (نہج البلاغۃ شرح ابن میثم ج۵ص۱۹۴) ہمارے درمیان جو اختلاف پیدا ہوا ہے وہ جناب عثمان کی شہادت کے بارے میں ہے۔ ہم نے شہادت عثمان میں کوئی حصہ نہیں لیا۔ ان کو غلط فہمی ہے کہ ہم نے قاتلوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ اس غلط فہمی کی وجہ سے ہم لڑنے کے لئے آئے وگرنہ ہمارے درمیان کفر و ایمان کا کوئی اختلاف موجود نہیں تھا۔ یہ حضرت علی کہہ رہے ہیں۔ دو سیاسی پارٹیاں تھیں۔ ایک گروپ کے لیڈر حضرت علی تھے ایک گروپ کے لیڈر حضرت معاویہ تھے اور یہی وجہ ہے کہ جب جنگ صفین ہوئی حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھیوں کی لاشوں اکٹھا کیا گیا اور حضرت معاویہ کے ساتھیوں کی لاشوں کو بھی اکٹھا کیا گیا۔ لوگوں نے کہا معاویہ کے ساتھیوں کی لاشوں کو اٹھاؤ اور گڑھوں میں پھینک دو اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو اٹھاؤ ان کا جنازہ پڑھو ان کو کفناؤ ان کو دفناؤ۔ حضرت علی نے جواب دیا تیری کتاب نہج البلاغہ کا حوالہ۔ فرمایا نہیں دونوں ایمان میں برابر ہیں۔ دونوں لاشوں کو رکھا جائے غلط فہمی کی بنیاد پہ اختلاف ہوا علی ان دونوں کا اکٹھا نماز جنازہ پڑھائے گا۔ کوئی اختلاف نہیں۔ بہرحال سیاسی طور پر اختلاف نے اتنی وسیع خلیج حائل کر دی کہ آپس میں ملنا دشوار ہو گیا لیکن کفر و اسلام کا فتوی دونوں جانبوں میں سے کسی نے دوسرے پر نہیں لگایا۔ حضرت معاویہ کی وفات کے بعد یزید کے دور حکومت کا جب آغاز ہوا حضرت حسین