کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 243
اس شہر کو دارالخلافہ بنایا تھا۔ پہلے دارالحکومت مدینتہ النبی تھا۔ حضرت علی نے مد ینتہ النبی سے خلافت کو منتقل کیا اور کوفہ کو دارالحکومت قرار دیا۔ اب اس شہر کے بھاگ جاگ اٹھے۔ ظاہری بات ہے جو کیپٹل ہوتا ہے دارالحکومت ہوتا ہے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے وہاں کے لوگوں میں خوشحالی آتی ہے۔ چنانچہ کوفہ کے لوگ حضرت علی کے بہت حامی اور اس بات میں مشہور تھے کہ یہ حضرت علی کی سیاسی پارٹی کے رکن ہیں۔ میں نے جان بوجھ کر سیاسی پارٹی کا لفظ استعمال کیا ہے اس لئے کہ اس زمانے میں مسلمانوں کے اندر کوئی مذہبی اختلاف موجود نہیں تھا۔ یہ اختلاف جو آج موجود ہے جس کو کفر اور اسلام کا اختلاف بنا دیا گیا ہے اس کا وجود حضرت علی کے زمانے میں موجود نہیں تھا۔ اس زمانے میں دو سیاسی پارٹیاں تھیں ایک پارٹی حضرت امیر معاویہ کی حامی تھی اور دوسری پارٹی حضرت علی کی حامی تھی۔ دونوں کے اختلافات سیاسی تھے مذہبی اختلاف ان کے اندر موجود نہیں تھے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے۔ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے یہ بات میں نہیں کہتا تیری سب سے مقدس کتاب نہج البلاغہ کے اندر موجود ہے کہ جب حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ اپنے لشکر کو لے کر حضرت امیر معاویہ کے لشکر کے مقابلے کے لئے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فوجیوں میں سے چند لوگوں نے حضرت امیر معاویہ کے فوجیوں کو گالی دی برے لفظوں سے یاد کیا۔ حضرت علی نے سنا۔ جا اٹھا کے دیکھ نہج البلاغہ کے اندر لکھا ہے۔ حضرت علی نے گالی سنی تو فرمایا لا تکونوا سبابین گالی دینے سے رک جاؤ۔ کوئی آدمی معاویہ کے ساتھیوں کو گالی نہ دے۔ لوگ حیران رہ گئے تلواریں نکلی ہوئیں نیزے سانوں پہ چڑھے ہوئے تیر کمانوں پہ چڑھے ہوئے ہم نے برے لفظوں سے یاد کیا ہے اور علی نے ٹوک دیا۔ علی نے فرمایا رک جاؤ کوئی گالی نہ دے۔ سن لو !علی کیا کہتے ہیں؟ یہ تمہارے امام معصوم اول ہیں‘ اپنا عقیدہ بیان کرتے ہیں۔ فرمایا لا نستزید ھم فی الایمان باللّٰه والتصد یق برسولہ و لا یستزید وننا