کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 242
سے یہ پوچھتا ہوں کہ حضرت علی کے بعد پھر ان کے بیٹے حضرت حسن کو کیسے خلیفہ بنایا گیا ؟ اگر یہ بات غلط تھی تو اس کا ارتکاب معاویہ سے بیس برس پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے کیا تھا۔ امیر معاویہ نے اپنے بیٹے یزید کو سن ساٹھ میں اپنا ولی عہد نامزد کیا اور حضرت حسن کو حضرت علی نے سن چالیس میں بیس سال پہلے نامزد کیا۔ اگر یہ بات قابل اعتراض ہے تو یہ عجیب بات ہے۔ کسی شاعر نے شاید اسی لئے کہا ہے کہ ایں گناہ ہیست کہ در شہر شما نیز کنند تمہاری بستی میں ہو تو وہ ثواب اور ہماری بستی میں ہو تو وہ گناہ۔ معیار ایک ہی رکھو۔ ہمارے لئے بھی وہی پیمانہ اور اپنے لئے بھی وہی پیمانہ۔ ہم اعتراض کرتے ہیں اس لئے کہ ہمارے نزدیک باپ کے بعد بیٹا خلافت اور امامت کا وارث نہیں ہو سکتا۔ تم کو کیا حق حاصل ہے ؟ بہرحال یہ بات سمجھنے کے بعد پھر سنو کہ سن ساٹھ میں امیر معاویہ کا انتقال ہوا۔ سن ساٹھ کے آخر میں یزید کو حکمران بنایا گیا اور اس کی خلافت کی بیعت لی گئی۔ اب کیا ہوا؟ جب یزید کی بیعت کے لئے سارے شہروں کے گورنروں کو مراسلہ آیا تو مدینے کے گورنر کو بھی آیا۔ اس نے شہر کے جو سربرآوردہ لوگ تھے ان کو یزید کی خلافت کے لئے بلایا۔ ان میں حضرت حسین بھی تھے حضرت صدیق کے بیٹے حضرت عبد الرحمن بھی تھے اور حضرت عمر کے بیٹے حضرت عبد اللہ بھی تھے اور بعض روایات کے مطابق ان میں حضرت زبیر کے بیٹے عبد اللہ بھی تھے لیکن صحیح روایت یہ ہے کہ وہ پہلے ہی مدینے سے رخصت ہو چکے تھے۔ چنانچہ ان سے کہا گیا کہ یزید کی بیعت کرو۔ حضرت حسین نے اجازت چاہی گورنر کو کہا کہ دیکھو ابھی ابھی ہمیں امیر معاویہ کی وفات کی خبر ہوئی ہے یزید کے حکمران بننے کی اطلاع ہوئی ہے۔ ابھی ہم کو غور و فکر کی اجازت دو۔ ہم سوچ سمجھ کے بتلائیں گے۔ اس نے کہا نہیں میں مہلت نہیں دے سکتا۔ حضرت حسین نے کہا مجھے صبح تک مہلت چاہئے۔ اس نے صبح تک مہلت دی۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے رات کی تاریکی سے فائدہ اٹھا کر مدینے سے کوچ کر لیا۔ آپ مکہ مکرمہ آپہنچے۔ اس زمانے میں لوگ اونٹوں پر سفر کرتے تھے۔ حضرت حسین کے مکہ مکرمہ میں پہنچنے کی خبر کوفہ کے لوگوں کو ملی۔ اور جانتے ہو کوفہ کے لوگ کون ہیں ؟ کوفہ کے لوگ وہ ہیں جن کے شہر کو حضرت علی نے مدینہ منورہ سے دارالخلافہ منتقل کر کے