کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 240
نہیں بھولے گا۔ انشاء اللہ باپ کے بعد خلافت کس کو مل گئی ؟ بیٹے کو ملا‘ واعظ گلا پھاڑ کر کہتا ہے اسلام کی تاریخ بدل گئی۔ کیا بدل گئی ہے بھئی؟ باپ کے بعد بیٹا حکمران ہو گیا ہے اسلام تبدیل ہو گیا ہے۔ میں کہتا ہوں اگر میں اہلحدیث کا بیٹا اہلسنت کا فرزند یہ بات کہوں تو شاید اس بات کا کوئی وزن ہو۔ اس لئے کہ ہمارے نزدیک باپ کے بعد بیٹا خلافت کا حقدار نہیں ہوتا ہمارے نزدیک امامت وراثت کی چیز نہیں ہے۔ اس لئے کہ کائنات کے انسان جب فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ کے آخری لمحات میں فاروق اعظم کی بارگاہ میں آئے اور آکر کہا فاروق اس دنیا سے جا رہے ہو اپنے بعد اپنے بیٹے عبد اللہ کو جو سرور کائنات کا صحابی نبی کے پیچھے نمازیں پڑھنے والا حضور کی قیادت میں جنگیں لڑنے والا سرور کائنات کی زبان اقدس نے جس کی تعریف کی ہے مومنوں کا امیر بنا دو تو فاروق نے آنکھ اٹھا کے جواب دیا نہیں نہیں میں قیامت کے دن اپنے رب سے یہ نہیں سننا چاہتا کہ میرا رب جب مجھ سے پوچھے کہ عمر امت کی باگ ڈور کس کو دے کے آیا تھا ؟ تو میں یہ نہیں سننا چاہتا کہ جواب میں یہ کہا جائے کہ اپنے بیٹے کو دے کے آیا۔ نہیں نہیں میں رب کی بارگاہ میں کہنا چاہتا ہوں اللہ میں اس کمیٹی کو سونپ آیا تھا جس کمیٹی کے ارکان کو تیرے نبی نے اپنی زبان اقدس سے جنت کی بشارت عطا فرمائی تھی۔ اپنے بیٹے کو نہیں دینا چاہتا۔ اور جس نے اصول وضع کیا تھا۔ آج اللہ کی رحمت سے یہ مسئلہ بھی سن لو۔ جس نے کنبہ پروری خویش پروری کی جڑ یہ کہہ کر کاٹی تھی کہ جب وقت آخر آیا مجوسی نے آپ کی پشت مبارک پہ خنجر کا وار کیا آپ زخمی ہو کے گرے موت کی بے ہوشیاں طاری ہوئیں تو آپ نے اس وقت ان لوگوں کو بلایا جن کو نبی کائنات نے نام لے کے جنت کی بشارت دی تھی۔ کل کتنے لوگ تھے؟ دس۔ فاروق اعظم کے زمانے میں سات زندہ تھے۔ آٹھویں خود فاروق تھے۔ کل دس تھے۔ صدیق اکبر فاروق اعظم عثمان ذوالنورین علی المرتضی طلحہ زبیر عبد الرحمن ابن عوف حضرت ابو عبیدہ ابن جراح اور