کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 239
معاویہ کی۔ جاؤ اپنی کتابوں کو اٹھا کے دیکھو۔ بیس سال حضرت معاویہ نے حکومت کی ہے بیس برس بلا شرکت غیرے حکمران اور خلیفتہ المسلمین اور امیر المومنین رہے ہیں۔ حسین بھی ان کی رعایا اور حسن بھی ان کی رعایا۔ بس ؟ بس رعایا؟ جا اپنی کتابوں کو اٹھا کے دیکھ۔ تیرا مرزا عباس قمی ’’منتہی الامال ‘‘میں‘ ملا باقر مجلسی ’’جلا العیون‘‘ میں لکھتا ہے کہ جب تک امیر معاویہ زندہ رہے‘ حسن اور حسین ان سے وظیفہ لیتے رہے اور نمازیں امیر معاویہ کے مقرر کردہ گورنر مدینہ مروان کے پیچھے پڑھتے رہے۔ آج باتیں کرتے ہیں مروان ایسا اور امیر معاویہ ایسا۔ اگر امیر معاویہ ضی اللہ عنہ ایسے ہوتے تو حضرت حسن اور حضرت حسین کو امیر معاویہ سے وظیفہ لینے کی ضرورت نہ تھی۔ اس کو جائز نہ سمجھتے اور ان کے خلاف جہاد کرتے خروج کرتے باہر نکلتے تلوار بے نیام کرتے۔ بیس سال کے طویل عرصے میں ایک دفعہ بھی حضرت امیر معاویہ کے خلاف زبان شکوہ کو حرکت نہیں دی۔ آج یہاں مسئلہ کفر و اسلام کا بنا لیا ہے۔ تیرے کہنے سے نہ کوئی کافر ہوتا ہے نہ تیرے کہنے سے کوئی مسلمان بنتا ہے۔ کون کافر کون مسلمان ؟ میرا عقیدہ یہ ہے جس کے ہاتھ پہ حسن و حسین بیعت کریں وہ کبھی کافر نہیں ہو سکتا۔ میرا تو تیرے اماموں کے بارے میں یہ عقیدہ ہے اور تیرا اپنے اماموں کے بارے میں عقیدہ کیا ہے کہ امام اور معصوم ہوتے ہوئے بھی انہوں نے کافروں کی بیعت کر لی تھی؟ کچھ خدا کا خوف کرو۔ ابھی تعلقات بتلاؤں گا۔ تو بات یہ ہو رہی تھی سن ساٹھ ہجری میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا۔ ۴۰ ہجری میں حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ ان کے ہاتھ پر بیعت کر کے خلافت سے دستبردار ہوئے اور بیس سال حضرت معاویہ نے بلا شرکت غیرے حکومت کی۔ کسی نے ان کی خلافت اور امامت کے خلاف کبھی زبان شکوہ کو حرکت نہیں دی۔ ۶۰ ہجری میں انتقال ہو گیا۔ حضرت امیر معاویہ کے بعد یزید کو ان کی جگہ خلیفہ بنایا گیا۔ اب یہاں رک کے یہ بات بھی سمجھ لو۔ یار کہتے ہیں یہ بڑا ظلم ہوا ہے۔ کیا ظلم ہوا ہے؟ کہتے ہیں باپ کے بعد بیٹے کو خلافت مل گئی۔ آج ذرا ہوش سے مسئلہ سن لینا۔ اللہ کے فضل و کرم سے اس طرح مسئلہ سمجھاؤں گا کہ پہلے کبھی نہیں سمجھا ہو گا اور پھر قیامت تک کبھی