کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 238
انہی کی محفل سنوارتا ہوں چراغ میرا ہے رات ان کی انہی کے مطلب کی کہہ رہا ہوں زبان میری ہے بات ان کی جاؤ اگر کوئی شیعہ دوست کھڑا ہے اسے کعبہ کے رب کی قسم ہے دنیا کے کسی ذاکر سے پوچھے۔ اگر کوئی ماں کا لال اس حوالے کو غلط ثابت کرے لاہور میں بیٹھ کے کہتا ہوں اپنی اس مسجد میں بیٹھ کے کہتا ہوں۔ منہ مانگا انعام دوں گا اور اگر حوالہ سچا ہے یا اپنی کتاب کو آگ لگا دو یا اپنے باطل عقیدے کو آگ لگا دو۔ ایک بات کو مانو یا اپنا عقیدہ چھوڑ دے یا اپنی کتابوں کو چھوڑ دے۔ تیری کتابوں کے اندر لکھا ہے کہ قیس ابن سعد ابن عبادہ نے حسین کی طرف دیکھا کیا کروں؟ معاویہ سامنے کھڑا ہے۔ جس کے خلاف جنگیں لڑتا رہا ہوں۔ آج اس کے ہاتھ پہ کیسے بیعت کروں؟ حسین کی طرف دیکھا حسین نے پلٹ کے جواب دیا قم فبایع انہ امامی (رجال کشی :۱۰۲) اٹھو قیس میری طرف کیا دیکھ رہے ہو؟ او جس کے ہاتھ پر حسن و حسین نے بیعت کی وہ پوری کائنات کا امام ہے۔ دنیا کا کوئی شخص اس کی امامت کو مانے بغیر نہیں رہ سکتا۔ قم فبایع انہ امامی(رجال کشی :۱۰۲) او جس کو تیرے دو معصوم اماموں نے امام مانا ہے تو اس کا انکار کرنے کی جرات کیسے کرتا ہے؟ ان کے خلاف کیسے بات کرتا ہے؟ یا سیدھی طرح بات کہہ کہ تجھ کو اس بات کا علم ہے جس کا تیرے اماموں کو علم نہیں تھا اور یا تو کہہ کہ تو حق پر ہے اور تیرے امام حق پر نہیں تھے ۔معاذ اللہ۔ پھر وہ عقیدہ عصمت کا باقی نہیں رہتا۔ عقیدہ امامت کے لئے یہ ہے کہ وہ امام ہوتا ہے جس سے کوئی غلطی نہیں ہو سکتی۔ امام بھی ایک نہیں دو ہیں۔ ایک حسن اور دوسرا حسین ۔ دونوں نے بیعت کی ہے اور باتیں بتلاؤں تو پھر سن لو۔ آج باتیں کرتے ہیں مروان کی عبد الملک کی اور حضرت امیر