کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 237
بیٹا خلافت سے دستبردار ہو کر اپنا خلیفہ امیر معاویہ کو مان رہا ہے۔ یہ حضرت حسن رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔ جاؤ یہ تمہاری دونوں کتابوں کا حوالہ۔ خود اکیلے نہیں آئے حسین کو ساتھ لے کے آئے۔ اپنی فوجوں کا کمانڈر قیس ابن سعد ابن عبادہ وہ بھی ساتھ ہے۔ کہا امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ میرا امام ہے پھر حسین کی طرف دیکھا اس حسین کی طرف جن کا نام نامی اسم گرامی لے کر تم صدیق و فاروق پہ کیچڑ اچھالتے ہو۔ پھر حسین کی طرف دیکھا کہا قم و بایع حسین !اٹھو۔ میں نے معاویہ کی امامت کو مانا ہے تم بھی معاویہ کے ہاتھ پہ بیعت کر کے اس کو اپنا امام مانو۔ حضرت حسین اٹھے حسن کے بعد حضرت امیر معاویہ کی بیعت کی پھر اپنے کمانڈر انچیف کو حکم دیا اٹھو معاویہ کی بیعت کرو۔ یہ فوجی آدمی تھا اور فوجیوں کا دماغ ذرا تھوڑا سا موٹا ہی ہوتا ہے۔ ان کا بستر اٹھا کر پھینکو تو انہیں سمجھ آتی ہے۔ اپنے آپ جانے کو تیار نہیں ہوتے۔ اور آج اسمبلی کے اندر اسلام کا نام لے کر وہ بل پیش کیا گیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ضیاء الحق اگر اسلام کے خلاف بھی بات کرے تو اس کو دنیا کی کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اسلام ہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا لایا ہوا اسلام کیا تھا؟ وہ جس کا اظہار صدیق اکبر نے کیا تھا۔ لوگو قرآن و سنت کے مطابق بات کروں تو میری مدد کرنا قرآن و سنت سے ہٹ جاؤں تو مجھ کو پکڑ کر میرے سر کو سیدھا کر دینا۔ یہ صدیق کہتا ہے اور ضیاء الحق صدیق اکبر سے بھی بڑا ہو گیا ہے معاذ اللہ اور وہ مولوی غیرت سے عاری جو اس کے باوجود اس بل کو تسلیم کرنے اور اس پر دستخط کرنے کے لئے تیار ہیں۔ کہا ہے کہ اس بل کو کسی شرعی عدالت میں بھی چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ سن لو ساری کائنات تمہارے بل کو مان لے خدا کے فضل و کرم سے قرآن و سنت کو ماننے والے اہلحدیث اس بل کو نہیں مانیں گے اور قرآن و سنت کے خلاف کسی آواز کو گوارا نہیں کریں گے۔ انشاء اللہ العزیز تو بات میں کہہ رہا تھا کہا اٹھو بیعت کرو۔ فوجی آدمی تھا۔ ادھر دیکھا ادھر دیکھا اب کیا کروں؟ حضرت حسین کی طرف دیکھتا ہے تیری کتاب کا حوالہ۔ میں کہا کرتا ہوں ۔