کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 235
کے بلا لیا ہو۔ کوئی خدا کا خوف کرو۔ انسٹھ سال حضرت حسین کی عمر ہے۔ انسٹھ ساٹھ برس کا ایک بوڑھا انسان۔ ظاہری بات ہے کہ اب جو بندہ لڑنے کے لئے جاتا ہے اسے دو ہی کام ہیں یا لڑے گا مارے گا یا نہیں مارے گا تو شہید ہو جائے گا۔ اس کا نتیجہ تو یہی ہوتا ہے۔ لڑنے کے دو ہی نتیجے نکلتے ہیں یا آدمی دشمنوں کو ختم کرتا ہے یا خود لڑتے ہوئے شہید ہو جاتا ہیجان دے دیتا ہے۔ اب اس میں اتنے بڑے افسانوں قصوں کہانیوں کی ضرورت کیا ہے اور کیا جی؟ پانی آرہا ہے اور پانی منہ میں نہیں جا رہا۔ بالکل اس طرح جس طرح کہ ایک ڈیڑھ دو سال کا بچہ ہو۔ پانی پلانے کے لئے لوگ آتے ہیں اور کوئی پانی پلانے نہیں دیتا۔ کوئی بات ہے؟ عقل کی بات کرو۔ یہ اس طرح کے قصے اور پھر کیا کہتے ہیں شہزادہ گلگوں قبا۔ کائنات کا امام حسین کا نانا یہ تو بادشاہتوں اور شہزادگیوں کو مٹانے کے لئے آیا تھا تم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نواسے کا نام ہی شہزادہ رکھ دیا ہے۔ کتنے تعجب کی بات ہے؟ دماغ کے اندر کسری کی شہنشاہی کی بو پڑی ہوئی ہے اور جب رسول کے بیٹے کا نام لیتے ہیں تو اس کے لئے بھی وہی لقب استعمال کرتے ہیں کہ جو القاب ان جابروں کے تھے جن کی جابریت اور قہاریت اور فرعونیت کو مٹانے کے لئے اللہ نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا۔ قصہ کیا ہے ؟ آج حقیقی بات یہ ہے کہ لوگوں کو واقعہ کربلا کی حقیقت کا بھی علم نہیں ہے اور سنیوں کو بھی معلوم نہیں۔ بیڑہ غرق سنیوں کا بھی ہو گیا ہے اس لئے کہ سنی بھی وہی قصے اور کہانیاں بیان کرتے ہیں جن کا شیعہ متھالوجی (مکتبہ فکر)نے لوگوں کے ذہنوں میں جال اور تانا بانا بنا ہوا ہے۔ اچھے خاصے مولوی اچھے خاصے واعظ اچھے خاصے خطیب شہادت حسین کا تذکرہ اسی طرح کرتے ہیں جس طرح کہ شیعہ ذاکر اپنی مجلسوں میں کرتے ہیں۔ حق بات کہتے ہوئے زبانوں میں لڑ کھڑاہٹ اور دماغوں میں ہچکچاہٹ پیدا ہوتی ہے۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رب کائنات نے جو دین عطا کیا اس میں کسی کی رو نہ رعایت نہ کسی کے لئے مداہنت نہ منافقت ہے۔ کہا فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ (سورۃ الحجر:۹۴)