کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 233
خدا بیان تو کربلا کا واقعہ کرتے ہو اس میں ذکر ابو بکر عمر اور عثمان کا کہاں سے آگیا؟ اس واقعہ میں اور اس واقعے کے تذکرے میں عشرہ مبشرہ کی بات کہاں سے آگئی ہے؟ اس واقعہ کے بیان میں نبی محترم رسول معظم سرور عالم کے پاکباز صحابہ کی زندگیاں کیوں معرض بحث آتی ہیں؟ ہمیں کچھ بتلاؤ کچھ سمجھاؤ کہ بات تو سیدھی سادھی ہے۔ آج ذرا جی سے بات سنو گے تو میں شاید اللہ توفیق دے دے تو بات سناؤں۔ میں بڑا ہی تھکا ہوا ہوں۔ روزانہ جلسے طبیعت خراب دن بھر کی مصروفیت ہمارا عجب حالرات کو تقریریں نہیں چھوڑتیں اور صبح کے وقت جلسے کے لئے تاریخیں لینے والے نہیں چھوڑتے اور اگر کسی کو کہہ دو آرام کر رہے ہیں تو ناراض ہو جاتا ہے۔ کہتا ہے دیکھو جی جب آتے ہیں آرام کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کا مطلب یہ ہے کہ شاید ہم لوگ مشینی انسان جس کو روبوٹ کہتے ہیں وہ ہیں۔ ہمارے اندر گوشت پوست کی کوئی چیز نہیں کہ بٹن دباؤ اور وہ چل پڑے بٹن بند کرو تو وہ بند ہو جائے۔ تو بہرحال تھکاوٹ کے باوجود میں یہ چاہتا ہوں کہ اس علاقے میں شاید بڑی مدت ہوئی ہے اس موضوع پر گفتگو نہیں ہوئی۔ آپ کے مولانا نے تو کی ہو گی لیکن اگر اللہ توفیق دے تو میرا جی چاہتا ہے کہ آج یہ مسئلہ سمجھا کے جاؤں۔ اس لئے کہ بیس پچیس دن بلکہ مہینہ بلکہ چالیس دن یہی واقعات ریڈیو پر بھی ٹی وی پر بھی اخبارات میں بھی بیان کئے جاتے ہیں۔ سیانے کہتے ہیں کہ اگر آدمی ایک جھوٹ کو دس مرتبہ دہرائے تو جھوٹ بولنے والے کو بھی یقین ہو جاتا ہے شاید میں سچ ہی بول رہا ہوں۔ اتنی مرتبہ جھوٹ کو دہرایا جائے تو جو خود جھوٹ کو تراشتا ہے خو جھوٹ کو گھڑتا ہے اسے بھی کبھی کبھی شبہہ ہو جاتا ہے کہ کہیں میں سچ ہی تو نہیں بول رہا۔ واقعہ یہی ہے۔ ہر روز جھوٹ اور جھوٹ اتنا دہراتے ہیں اتنا جھوٹ بولتے ہیں آدمی کو حیرت ہوتی ہے کہ نہ سننے والے ٹوکتے ہیں نہ بیان کرنے والے کو حیا آتی ہے نہ کوئی عقل کا سوال کرتا ہے کہ دین مذہب کی بات تو چھوڑو کوئی عقل کی بات ہی بتلا دو کہ عقلی طور پر بھی یہ بات ممکن ہے کہ نہیں ہے؟ کوئی آدمی اس بات کو سوچنے سمجھنے ٹوکنے روکنے پوچھنے کے لئے تیار نہیں ہوتا۔