کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 232
اسلاف ملت کے خلاف ہرزہ سرائی کریں کہ جن کا اگر وجود نہ ہوتا تو نہ جانے آج ہم لوگ مسلمان بھی ہوتے کہ نہ ہوتے اور جن لوگوں نے اپنی جوانیوں کی قوتوں اور طاقتوں اور اپنی زندگی بھر کی کوششوں اور کاوشوں اور اپنے عمر بھر کے اثاثے کو اللہ کی راہ میں اس لئے لٹایا کہ اللہ کا دین بارآور ہو جائے اور کائنات میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا شہرہ پھیل جائے ان کے خلاف گفتگو کی جاتی ہے اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کے لئے بہانہ بنایا جاتا ہے حضرت حسین ابن علی کی شہادت کو اور حیرانگی کی بات یہ ہے تعجب کی بات یہ ہے کہ نام لیا جاتا ہے حسین کی شہادت کا اور مجلسوں میں ذکر ان لوگوں کا کیا جاتا ہے جو نہ صرف یہ کہ شہادت حسین میں ان کا کوئی کردار نہیں انہوں نے کسی قسم کا کوئی اس بارے میں اپنے اعمال اور افعال اور اقوال سے حصہ نہیں لیا۔ بلکہ ان لوگوں کے خلاف گفتگو کی جاتی ہے جو اس واقعہ کے رونما ہونے سے نصف صدی پہلے اس کائنات سے رخصت ہو چکے تھے۔ حیرانگی کی بات ہے کہ نہیں۔ اگر شہادت حسین کا تذکرہ کرتے ہوئے ان لوگوں کے خلاف یا ان لوگوں کے متعلق گفتگو کی جاتی جن کا کسی نہ کسی طریقے سے اس واقعہ میں ہاتھ ہے تو بات سمجھ میں آسکتی تھی کہ بھائی چند لوگوں کا یہ نقطہ نگاہ ہے کہ فلاں اور فلاں شخص نے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت میں کسی نہ کسی طور سے حصہ لیا لیکن تعجب بالائے تعجب اور حیرت در حیرت اور افسوس در افسوس کہ ان کا نام تو نہیں لیا جاتا۔ نام ان کا لیا جاتا ہے جو حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت کے واقعہ سے برسوں پہلے اس دنیا سے ہی رخصت ہو چکے تھے۔ اس دنیا میں بھی موجود نہ تھے۔ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالی عنہ اس واقعہ کے چالیس برس پہلے اس دنیا سے رخصت ہو چکے تھے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ اس واقعہ سے انچاس برس پہلے رخصت ہو چکے تھے حضرت عثمان ذوالنورین رضی اللہ تعالی عنہ کربلا کے اس واقعہ سے تیس سال پہلے اپنے رب کے پاس جا چکے تھے۔ طلحہ زبیر عبد الرحمن بن عوف ابو عبیدہ ابن جراح سعد ابن ابی وقاص خالد ابن ولید حتی کہ امیر معاویہ رضوان اللہ علیھم اجمعین وہ بھی جب یہ واقعہ رونما ہوا ہے اس کائنات میں موجود نہیں تھے۔ کوئی بھلا مانس پوچھنے والا نہیں ہے کہ بندگان