کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 23
وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ۔[1] (سورئہ احزاب:۳۶) مومن وہ ہیں جن کا اللہ رسول کے مقابلے میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔ جو اللہ رسول کے احکامات کے مقابلے میں اپنے اختیارات کو باقی رکھتا یا باقی سمجھتا ہے وہ شخص مومن نہیں ہے۔ قرآن پاک نے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ نے ہمیں اس بات کی خبر دی ہے کہ مومن اور مسلمان صرف اس شخص کو کہا جاتا ہے جس کے اپنے اختیارات ختم ہو چکے ہوں اور اس نے اپنے نفس پر اپنی جان پر اپنے جسم پر اللہ تعالیٰ کے حکم کی بالادستی کو تسلیم کر لیا ہو اور اپنی خواہشات کو کچل کر اسے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کے تابع بنا لیا ہو۔ روزہ ان اختیارات کے کچلنے اور ان خواہشات کے خاتمے کا ایک چھوٹا سا سمبل (Symbol) ہے ایک معمولی سا نمونہ ہے۔ انسان کا جی کھانے کو چاہتا ہے انسان کا دل گرمیوں کے موسم میں ٹھنڈی چیز پینے کو چاہتا ہے۔ انسان فطری خواہشات کو پورا کرنے کے لئے حلال راستوں کی تلاش میں رہتا ہے لیکن اللہ کے حکم پر رسول کے فرمان پر اپنی خواہش کو کچلتا ہے اپنے من کو مارتا ہے اپنے ارادوں کو ختم کرتا ہے اپنے اختیارات کو مکمل طور پر نفی میں تبدیل کرتا ہے اور اس بات کا اظہار اور اعلان کرتا ہے کہ میں نے اپنے جسم پر اپنی روح پر اپنے ارادوں پر اپنی خواہشات پر اپنے اللہ کے حکم کو غالب کر لیا ہے ۔ اپنے آقا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو غالب کر لیا ہے کہ رب نے کہا ہے پیاس لگے تو پانی نہ پیو۔ بھوک لگے تو کھانا نہ کھاؤ گرمی لگے تو برداشت کرو اور صبر کرو۔ حرام خواہشات تو حرام خواہشات ہیں حلال خواہشات کو بھی ترک کر دو۔ روزہ ترک حلال کا نام ہے۔ حرام کے ترک کا نام نہیں ہے۔ روزہ نام ہے حلال کے ترک کرنے کا۔ حرام ترک کرنا تو ایک مومن اور ایک مسلمان کے لئے عام دنوں میں بھی اتنا ہی لازمی اور ضروری ہے جتنا رمضان المبارک کے مہینے میں ہے لیکن روزہ تو کہتے ہیں ترک حلال کو۔ ترک حرام کو روزہ نہیں کہتے۔ کھانا حلال ہے پینا حلال ہے خواہشات کو صحیح طریقہ پر ادا کرنا حلال ہے لیکن انسان اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے تابع بنا کر حلال کو بھی ترک کر دیتا ہے۔ حرام سے اجتناب کرنا تو
[1] سور احزاب: ۳۶