کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 225
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر مذہب عشق اختیار کیا ہم سے کیا لڑتے ہو؟ ہم تو تمہاری نگاہ ناز کے پہلے ہی مارے ہوئے ہیں۔ ہم کو مارنے کے لئے تو پتھر اٹھانے کی ضرورت نہیں۔ نگاہ اٹھاؤ مر جائیں گے۔ ہم سے کیا لڑتے ہو۔ ہم جیسے غریب مارشل لاء کے جنگل کے قانون میں جس کو نہیں مانتے ڈنکے کی چوٹ کہتے ہیں ہم تجھ کو امیر المومنین نہیں مانتے۔ یہاں ایک اور بات سن لو۔ شاید پھر کبھی نہ سنئے گا۔ کئی دن ہو گئے ہیں تھکا ہوا ہوں لیکن آج جی چاہتا ہے تمہیں کچھ سنا کے جاؤں سمجھا کے جاؤں۔ سن ۶۰ ھ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے بعد یزید خلیفہ ہوا۔ سن ۶۱ھ میں حسین نے خروج کیا۔ جب خروج کیا حسین رضی اللہ عنہ کی عمر ۵۹سال تھی۔ دوسری روایت کے مطابق ۵۷برس۔ بہرحال حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی عمر ۵۹ سال تھی اور ۵۹ سال کا بندہ بوڑھا ہوتا ہے۔ اگر حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کو غلط سمجھا بڑھاپے میں خروج کیا۔ تو جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے اس وقت علی رضی اللہ عنہ کی عمر تیس سال تھی۔ اگر ساٹھ سال کا بوڑھا خروج کرتا ہے تو تیس سال کے جوان نے کیوں خروج نہیں کیا ؟ اگر یہ بات ناحق ہوتی تو علی رضی اللہ عنہ زیادہ اولی تھا کہ وہ خروج کرتا۔ بوڑھے کا تو عذر ہے کہ میں بوڑھا ہوں نہیں نکل سکتا۔ جوان کا عذر کیا ہے؟ اور جوان بھی وہ جو شیر خدا ہے‘ جو مشکل کشا ہے‘ جو حاجت روا ہے‘ جو لافتی ہے‘ جو صاحب ذوالفقار ہے‘ اس نے کیا کہا؟ کتاب تیری‘ سن لے ذرا۔ اس نے کہا فلما احتضر بعث الی عمر فولاہ جب ابو بکر کی وفات ہوئی تو عمر کو ہم پر حکمران مقرر کیا۔ ہم نے کیا کیا؟ انکار کیانہ مانا اعتراض کیا؟ کہا نہیں