کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 224
ہم جیسے غریب مارشل لاء کے دور میں مارشل لاء کی حکومت پر تنقید کرتے ہیں۔ مارشل لاء کے دور میں جیلیں بھگتتے مقدمے جھیلتے ہیں۔ میں حج کرنے کے لئے گیا۔ پیچھے مارشل لاء کے تحت مقدمہ بنا ہوا۔ میں نے کہا اب حج پر بھی مقدمہ بنا دو۔ کل نماز پر مقدمہ بنا دینا۔ میں حج کے لئے گیا میرے خلاف مارشل لاء کی دفعہ ۱۳ کا مقدمہ بنا ہوا۔ ہم نے مقدمے جھیلے‘ صعوبتیں برداشت کیں لیکن جس کو ناحق سمجھا اس کو حق کہنے کے لئے تیار نہیں ہوئے۔ علی کو کیا ہو گیا ہے؟ یہ فاتح خیبر ہے یہ صارع مرحب ہے یہ اسد اللہ الغالب ہے یہ صاحب ذوالفقار ہے۔ ساری روایتیں تمہاری ہیں۔ یہ لا فتی الاعلی ہے یہ مشکل کشا ہے یہ حاجت روا ہے۔ ہے کہ نہیں ؟ تم نے لکھا اور درود پڑھنے والوں نے بھی لکھا۔ یہ بھی بے چارے جلسہ کرتے ہیں۔ پتہ نہیں ہمارے خلاف کرتے ہیں کہ ان کے خلاف کرتے ہیں۔ کوئی پتہ نہیں معشوق مابشیوہ ہر کس جدا نماں باما شراب خورد و بظاہر نماز کرد ہمارے محبوب کے دوہی نشان ہیں کیا؟ عاشق کے ساتھ بھی‘ رقیب کے ساتھ بھی۔ انہوں نے بھی لکھا اپنی کتاب میں۔ کہا ناد علیا مظھر العجائب تجدہ عونا لک فی النوائب علی کو پکارو۔ وہ تمہاری آواز پر لبیک کہتا ہوا آئے گا اور تیری مصیبت کو دور کر دے گا۔ کل ھم و غم سینجلی بولایتک یا علی یا علی۔ (الامن والعلی۔ احمد خان۔ ص:۱۲‘۱۳) یہ درود پڑھنے والوں نے اپنی کتاب میں لکھا ہے۔ مطلب تو دونوں کا ایک ہی ہے۔ پھر اختلاف کس کا ہے؟ اختلاف تو ہم غریبوں کے ساتھ ہے اور ہم ہم تو وہی کہتے ہیں میر کے الفاظ میں ہم فقیروں سے بے اعتنائی کیا ہے آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا