کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 223
ہوئی تیسری صدی ہجری کا آدمی ایران کی چھپی ہوئی۔ اس پر بھی بس نہیں کی۔ کہا فتولی ابو بکر تلک الامور ابو بکر رضی اللہ عنہ امام مسلمین بنا۔ فیسر و سد د و قارب و اقتصد فصحبتہ مناصحا و اطعتہ فیما اطاع اللّٰه جاھدا (کتاب الغارات ص: ۳۰۶‘ ۳۰۷) کہا! جب تک زندہ رہا بہترین زندہ رہا۔ سنت پر عمل کرتا رہا حق کو اونچا کرتا رہا باطل کو مٹاتا رہا۔ جب تک زندہ رہا میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرتا رہا۔ جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے بات کرتے ہو حسین رضی اللہ عنہ کی آتے ہو ابو بکر رضی اللہ عنہ کی خلافت پر۔ کہتے ہیں حسین کی بات کرتے ہوئے ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام اس لئے لیتے ہیں کہ سب سے پہلے ابو بکر رضی اللہ عنہ نے خلافت چھینی تھی۔ اگر ابو بکر نہ چھینتا تو یزید کو بھی چھیننے کی جرات نہ ہوتی۔ ہم نے کہا تمہاری مانیں کہ امام معصوم اول امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی مانیں۔ علی تو کہتا ہے میں نے بیعت کی بیعت ہی نہیں کی اطاعت بھی کی۔ اطاعت ہی نہیں کی ابو بکر کا دست و بازو بھی بنا حق کو بلند کیا باطل کی سرکوبی کی۔ علی پھر کیا ہوا ؟ پھر مسئلہ ختم؟ کہا نہیں ۔ اللہ اکبر فلما احتضر جب اس کی موت کا وقت آیا بعث الی عمر اس نے عمر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا۔ فولاہ او سن لے! کوئی ماں کا لال اس کے انکار کی جرات کرے۔ کہا فولاہ اس کو ہمارا والی بنایا۔ جناب آپ نے کیا کیا۔