کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 222
ابو بکر پہ اس طرح ٹوٹ کے گرے جس طرح شہد کی مکھیاں شہد کے چھاتے پہ گرتی ہیں۔ فمشیت پھر میں اٹھا عند ذ لک الی ابی بکر پھر میں اٹھا ابو بکر کے پاس گیا فبایعتہ میں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ کون کہہ رہا ہے؟ حضرت علی ۔ زبانی نہیں کہا خط لکھا۔ میں نے ابو بکر کی بیعت کی۔ ۱۴۰۰سال بعد ملاں کو الہام ہوا۔ کہتا ہے اوپر سے بیعت کی اندر سے ناراض تھے۔ جا مجھے بڑی خوشی ہو گی اس بیگم کوٹ کے چوراہے میں آکر اس کتاب کو جھوٹا کہہ کر اس کو آگ لگا دے۔ کہہ یہ جھوٹ بولتی ہے۔ کیوں علی نے اتنا ہی نہیں کہا۔ خدا کو پتہ تھا کچھ لوگ آئیں گے انکار کریں گے۔ علی کے منہ سے کہلوایا۔ آج بات بھی بتلا دے جھوٹ موٹ کی تھی کہ اندر سے کی تھی؟ کہا فبایعتہ و نھضت فی تلک الاحد اث حتی زاغ الباطل و زھق و کانت کلمتہ اللّٰه ھی العلیا میں نے بیعت ہی نہیں کی میں ابو بکر کا دست و بازو بن گیا۔ میں ابو بکر کا دست و بازو بن گیا۔ بس ؟ اس پہ بھی بس نہیں کی۔ ہائے کمال کر دیا کہا میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کا دست و بازو بن گیا۔ آگے سن لو۔ ان الفاظ کو سونے میں تولو۔ اللہ کی قسم ہے۔ دیکھو تو سہی علی کی فراست مومنانہ نے کیا کہا ہے؟ نھضت فی تلک الاحد اث حتی زاغ الباطل و زھق میں اٹھا ابو بکر کا دست و بازو بنا باطل کی سرکوبی کی حق کا ساتھ دیا۔ و لو کرہ الکافرون اگرچہ کافر اس کا انکار کرتے رہے۔ میں نہیں کہتا۔ یہ علی کی حدیث ہے۔ شیعہ کی لکھی