کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 22
لئے استعمال ہوتا ہے جس کی ناک میں نکیل پڑی ہوئی ہو اور اس کا سرا کسی دوسرے کے ہاتھ میں ہو۔ یعنی اس اونٹ کو مسلم کہا جاتا ہے جو اپنی مرضی سے نہ چل سکتا ہے نہ رک سکتا ہے نہ اٹھ سکتا ہے نہ بیٹھ سکتا ہے نہ حرکت کر سکتا ہے نہ سکون پذیر ہو سکتا ہے۔ بلکہ وہ اونٹ تبھی حرکت میں آتا ہے جب کہ نکیل تھامنے والا اسے حرکت میں لاتا ہے۔ اسی وقت بیٹھتا ہے جب مہار تھامنے والا اسے بیٹھنے کو کہتا ہے۔ اسی وقت اٹھتا ہے جب اٹھانے والا اس کو اٹھاتا ہے۔ اس لفظ کو اس شخص کے لئے استعمال کیا گیا جس نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے لائے گئے نظام حیات کو تسلیم کیا۔ اسے مسلم کہا گیا ہے۔ معنی یہ ہے کہ اس شخص نے اپنے آپ کو کسی ایسے نظام کے تابع کر دیا ہے جس کی باگ ڈور جس کی نکیل اور مہار اس کے ہاتھ میں نہیں بلکہ اس نظام کے بھیجنے والے رب اللعالمین کے ہاتھ میں ہے یا اس نظام کے لانے والے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں ہے۔ ایک مومن ایک مسلمان وہاں بیٹھتا ہے جہاں اللہ‘ رسول اسے بیٹھنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس جگہ رکتا ہے جہاں اللہ رسول اسے رکنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس جگہ نہیں ٹھہرتا جہاں رب رسول اسے نہیں ٹھہرانا چاہتے۔ اس جگہ نہیں بیٹھتا جس جگہ اللہ اور رسول اسے بیٹھے دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ یہ ایک مسلمان کی موٹی سی تعریف ہے اور اس طرح کے انسان کو جس نے اپنی خواہشات کو اللہ رسول کے حکم کے تابع کر دیا ہو مسلم کہا جاتا ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے ارشاد فرمایا ہے۔ لا يُؤمِنُ أحدُكُم حتّى يكونَ هواهُ تَبَعًا لما جئتُ بهِ لوگو کوئی شخص اس وقت تک مومن کہلانے کا حق نہیں رکھتا جب تک کہ وہ اپنی خواہشات کو میرے حکم کے تابع نہیں بنا لیتا۔ مومن وہ ہے جس کی اپنی کوئی مرضی نہ ہو بلکہ اس نے اپنی خواہشات کو کچل کراپنی مرضی کو ختم کر کے اسے اللہ رسول کے تابع بنا دیا ہو۔ وہ شخص تو مومن ہے اور جو شخص اپنی خواہشات اپنی مرضی اور اپنے ارادوں کو اللہ اور رسول کے حکم سے بالا سمجھتا ہے قرآن اور حدیث کی رو سے وہ شخص مومن اور مسلمان کہلانے کا حق نہیں رکھتا۔ یہی بات رب العالمین نے بائیسویں پارے میں ارشاد کی ہے۔ فرمایا