کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 219
لوگوں نے کہا اگر جنتیوں کو بنانا ہے تو ساتویں کو کیوں نہیں بنایا ؟ نگاہوں کو جھکایا۔ کہنے لگے مجھے حیا آتی ہے کہ قیامت کے دن رب نے پوچھا امت کی باگ ڈور کس کے پاس دے کے آیا تھا تو حیا آتی ہے کہ میں اس میں اس آدمی کو بھی رکھوں جو میرا بہنوئی بھی ہے۔ میں اپنے بہنوئی کو جنت کی بشارت پانے کے باوجود خلافت کی کمیٹی میں رکھنا گوارا نہیں کرتا تاکہ خدا کی بارگاہ میں جواب نہ دینا پڑ جائے۔ سعید ابن عاص کو نکال دیا۔
ہم نے کہا ہمارے نزدیک باپ کے بعد بیٹا حکمران ہونا قابل اعتراض بات ہے۔ اس لئے کہ نہ صدیق رضی اللہ عنہ نے‘ نہ فاروق رضی اللہ عنہ نے بنایا۔ کہا جناب! ہم کو اعتراض ہے۔ تم کو کیا اعتراض ہے؟
کہنے لگے باپ کے بعد بیٹا؟ ہم نے کہا تمہارا مذہب ہی یہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا امام ہوتا ہے۔ تم کو کیا اعتراض ہے ؟
تمہارا تو مذہب ہی یہ ہے کہ باپ کے بعد بیٹا۔ پہلے علی رضی اللہ عنہ پھر؟ حسن ضی اللہ عنہ ‘ پھر حسین ضی اللہ عنہ ‘ پھر حسن ضی اللہ عنہ ‘ کا بیٹا زین العابدین‘ پھر زین العابدین کا بیٹا محمد باقر‘ پھر محمد باقر کا بیٹا جعفر صادق‘ پھر جعفر صادق کا بیٹا موسیٰ کاظم‘ پھر موسیٰ کاظم کا بیٹا علی رضا یا علی جواد‘ پھر اس کا بیٹا تقی‘ پھر اس کا بیٹا حسن عسکری پھر بیٹا نہ ہوا تو کہنے لگے وہ غار میں داخل ہو گیا ہے۔ تم کو کیا اعتراض ہے ؟
جن کے ہاں امامت نام ہی وراثت کا ہے۔
’’اگر ایں گناہ ہیست کہ در شہر شما نیز کنند‘‘
اگر یہ گناہ تھا تو ہمارے عقیدے کے مطابق ’’الارشاد‘‘ مفید کی ’’اعلام الوریٰ‘‘ طبرسی کی’’ امالی‘‘ شیخ طوسی کی اور ’’کتاب الکافی‘‘ کلینی کی۔ ان سب میں لکھا ہے حسن حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وصیت سے امام ہوا کیونکہ باپ کے بعد بیٹے کے سوا کوئی دوسرا حکمران نہیں ہو سکتا۔ اگر تمہارے نزدیک باپ کا بیٹا ہوتا ہے تو معاویہ کے بعد اس کا بیٹا ہو گیا تمہیں کیا تکلیف ہے؟ تمہیں کیا اعتراض ہے ؟
تمہارے نزدیک تو امامت ہے ہی وراثت کی۔ اعتراض ہو تو ہم اہلحدیثوں کو۔ جن کے نزدیک امامت کا معیار وہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقرر کیا اور رسول اللہ نے کیا مقرر کیا ؟