کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 218
کہا بڑا ظلم ہو گیا۔ کیا ظلم ہو گیا؟ جی باپ کے بعد بیٹا حکمران ہو گیا۔ میں نے کہا میں اعتراض کروں تو اعتراض کا مجھے حق ہے۔ تجھ کو کیا حق ہے۔ کہنے لگے کیوں؟ میں نے کہا اس لئے کہ میرے مذہب میں باپ کے بعد بیٹا حکمران نہیں ہوتا۔ اگر باپ کے بعد بیٹا حکمران ہو سکتا تو فاروق رضی اللہ عنہ کے بعد عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کو حکمران ہونا چاہئے تھا کہ عبد اللہ ابن عمر وہ صحابی ہے جس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی۔ لیکن فاروق رضی اللہ عنہ نے بیٹا تو بڑی بات ہے۔ عشرہ مبشرہ کے چھ آدمیوں کی خلافت کمیٹی بنائی۔ ساتواں بھی عشرہ مبشرہ کا زندہ تھا۔ جانتے ہو عشرہ مبشرہ کے کتنے صحابی تھے؟ دس ۔ چار خلفاء راشدین باقی چھ۔ کسی کو پتہ ہے؟ نور جہاں کی ماں کا بھی سب کو پتہ ہے۔ شرم کرنی چاہئے۔ طوائفوں‘ رنڈیوں کی اولادوں کا اور باپوں کا نام یاد ہو گا۔ نہیں یاد تو رسول کے صحابہ کا نام یاد نہیں ہو گا۔ کسی کو یاد نہیں۔ پھر اگر نئی نسل ہیروئین پینے والی نہیں ہو گی تو اور کیا پیئے گی؟ سنو! دس صحابی تھے جن کا نام لے کے نبیؐ نے جنت کی بشارت دی تھی۔ چار خلفاء راشدین پانچویں حضرت طلحہ چھٹے حضرت زبیر ضی اللہ عنہم ‘ ساتویں حضرت سعد ابن ابی وقاص ضی اللہ عنہ ‘ آٹھویں حضرت عبد الرحمان ابن عوف ضی اللہ عنہ ‘ نویں ابو عبیدہ ابن الجراح ضی اللہ عنہ ‘ دسویں حضرت سعید ابن عاص رضی اللہ عنہ تھے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی اس وقت باقی سات زندہ تھے۔ دو پہلے فوت ہو چکے تھے۔ تیسرے جا رہے تھے۔ حضرت ابو بکر بھی فوت ہو چکے تھے اور حضرت ابو عبیدہ ابن الجراح بھی۔ باقی کتنے تھے ؟ سات! حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کمیٹی بنائی چھ کی۔ ساتویں کو نکال دیا۔ لوگوں نے پوچھا یا حضرت یہ کون ہیں؟ کہا یہ وہ ہیں جن کا نام لے کے نبی نے جنت کی بشارت دی ہے۔ جن میں ایک حضرت علی ضی اللہ عنہ ‘ دوسرے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ‘ تیسرے حضرت طلحہ ضی اللہ عنہ ‘ چوتھے حضرت زبیر ضی اللہ عنہ ‘ پانچویں حضرت عبد الرحمان بن عوف ضی اللہ عنہ ‘ چھٹے سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ تھے۔ ساتویں کو نکال دیا۔