کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 217
کرتا ہے قرآن سے کرتا ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے کرتا ہے اس سے باہر نکلتا ہی نہیں۔
ہم نے کہا تجھ کو تمہاری یہ لال کتابیں مبارک اور مجھ کو رب کا یہ قرآن مبارک کہ رب کے رسول نے کہا کہ جب جنت کے دروازے پر دستک دے گا فرشتے کہیں گے۔
اقرء و ارتق ۔ اقرء و ارتق ۔ اقرء و ارتق
قرآن پڑھتا جا جنت کی منزلوں کو طے کرتا جا۔
مجھے سب ہے یاد ذرا ذرا
تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو
بھولتا نہیں ہوں سبق کو جو سبق آج انشاء اللہ تمہیں پڑھا کے جانا ہے۔
حسن رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد
تحرکت الشیعتہ بالعراق
کوفہ کے شیعہ حرکت میں آگئے۔ کہنے لگے بیعت توڑ دو۔ حسین نے کہا جس کے ساتھ رشتہ میرے بھائی نے جوڑا میں توڑنے کے لئے تیار نہیں۔ )۴۱ھ سے ۴۷ھ تک سات سال گزر گئے کوئی دوسری آواز بلند نہیں ہوئی۔ پھر زمانہ بیتا۔ ۵۰ھ گذرا‘ پھر ۵۵ ھ گزرا‘ پھر ۵۶ھ‘ پھر ۵۷ ھ‘ پھر ۵۸ھ‘ پھر ۵۹ھ‘ پھر ۶۰ھ کتنے سال؟ ۲۰برس۔ ہم نے ضیاء الحق کی چار پائی ۷ سال بعد اٹھا لی ہے۔ وہاں بیس برس تک کوئی نہیں بولا۔ شعبان سن ۶۰ہجری میں امیر معاویہ کا انتقال ہوا۔ لوگوں کے کہنے پر اپنے بیٹے کو امیر اور خلیفہ نامزد کیا جس کا نام یزید تھا۔ بڑا اعتراض کرتے ہیں۔
سنو! آج مسئلہ سمجھا کے جاؤں گا۔ مولانا یزدانی صاحب بھی شہادت حسین رضی اللہ عنہ بیان کر رہے تھے۔ سن لو شہادت حسین رضی اللہ عنہ کا مسئلہ بھی سن لو۔ سن ۶۰ھ میں حضرت امیر معاویہ کے انتقال کے بعد ان کے ساتھیوں نے یزید کو امیر بنایا۔ کہنے لگے اسلام کی عمارت تبدیل ہو گئی ہے۔ کیوں؟
باپ کے بعد بیٹا حکمران ہو گیا۔ ہم نے کہا اعتراض ہم کریں تو جائز۔ تمہیں کرنے کا کوئی حق نہیں۔ کیوں بھئی؟
اس لئے نہیں کہ تمہارے لئے پیمانہ اور ہمارے لئے اور۔ ہم انصاف کی بات کرتے ہیں۔