کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 216
پہ راضی ہم اپنے نصیبے پہ راضی۔ تم قیامت کے دن چمٹے بجاتے ہوئے آنا اور ہم قرآن پڑھتے ہوئے آئیں گے۔ تو چمٹے بجاتے ہوئے آ‘ تو مرثئے پڑھتے ہوئے آ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پڑھتے ہوئے آؤں گا۔ تم کہنا ابو بکر برا تھا عمر برا تھا۔ میں نبی کے ساتھ حوض کوثر پہ بیٹھا ہوا دیکھوں گا اور کہوں گا
کائنات کے امام کے ساتھیو بڑا گنہگار تھا بڑا خطا کار تھا بڑی غلطیاں کیں لیکن جب تک زندہ رہا صدیق اور فاروق تیری ثنا کرتا رہا۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی محبت میں تجھ کو اپنے سینے میں بساتا رہا۔ تیری خاک کو اپنا سرمہ بناتا رہا۔
نبی کے ساتھیو! میرا دل دھڑکتا تھا تو تمہاری محبت میں دھڑکتا تھا اور دعا مانگتا تھا۔ اللہ جس دن اس دل میں تیرے نبی کے صحابہ کی محبت نہ رہے یہ دل دھڑکنا چھوڑ دے۔ اس لئے کہ مجھے اس دل کی ضرورت نہیں جس میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی نہیں بستے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں کا کیا کہنا ہے۔
او جن کے ساتھ کوئی رشتہ ہوتا ہے پھر ان کو کوئی خیر بھی ڈال دیتا ہے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو کہیں گے تیرے لئے تیر کھاتے رہے۔ نبیؐ کے صحابہ ضی اللہ عنہم کو کہیں گے تمہارے لئے گالیاں کھاتے رہے اور رب کو کہیں گے تیری توحید کے لئے پتھر کھاتے رہے اور تو کچھ بھی لے کے نہیں آئے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ مدینے والے کے ساتھی حوض کوثر کا پانی پلا دیں گے کہ جس پانی کے پینے والے کو پچاس ہزار سال تک پیاس نہیں لگے گی اور جس کے لئے ماریں کھاتے رہے جس کی توحید کے لئے برا بنتے رہے۔ امید ہے کہ جس دن اس کے عرش کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا وہ اپنے عرش کا سایہ نصیب کر دے گا کہ میرے آقا نے کہا جس کو رب کے عرش کا سایہ نصیب ہو گیا اس کے لئے پچاس ہزار سال اس طرح گذر جائیں گے جس طرح آنکھ کے جھپکنے کا عرصہ گزر جاتا ہے۔ لوگو!
خون نہ کردہ ایم کسے را نہ کشتہ ایم
جرمم ہمیں کہ عاشق روئے تو گشتہ ایم
سارے برا کہتے ہیں سارے گالیاں دیتے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کسی گالی دینے والے کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ یہ کہے یہ ا پنے پاس سے لاتا ہے۔ ہم سے چڑتے ہیں۔ جو بات بھی