کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 215
میں نے کہا پھر سن لو کیا سمجھا ہے؟ میرے آقا نے کہا من احد ث فی امرنا ھذ ا ما لیس منہ فھو رد او جس نے دین کا نام لے کر میرے دین کے اندر نیکی کے طور پر کسی ایسی چیز کو رائج کیا جس پر میری مہر نہیں لگی ہوئی وہ اس کے منہ پر دے ماری جائے گی۔ من احدث فی امرنا ھذا جس پہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نہیں وہ سکہ سچا نہیں وہ سکہ کھوٹا ہے۔ نہیں سمجھ آئی بات؟ ایک بندہ نوٹ لے کے آیا کہنے لگا یہ میں گھر بنا کر لایا ہوں یہ چلے گا؟ ہم نے کہا نہیں چل سکتا۔ کہنے لگا دیکھو رنگ کیسا اچھا ڈھنگ کیسا اچھا شکل اچھی کاغذ اچھا صورت اچھی چھپائی اچھی ممانعت کی دلیل پیش کرو۔ کیوں نہیں چل سکتا ؟ ہم نے کہا یہاں کاغذ نہیں چلتا۔ حکومت کی مہر چلتی ہے۔ تیرا درود نہیں چل سکتا۔ کیوں نہیں چل سکتا؟ دین کے مسئلے میں تیرا میرا مسئلہ نہیں چلتا۔ آمنہ کے لال کی مہر چلتی ہے۔ یہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر چلتی ہے۔ آمنہ کے لال کی مہر دکھاؤ سکہ چلے گا۔ بغیر مہر کے سکہ نہیں چل سکتا۔ جعل سازی کے جرم میں اندر ہو جاؤ گے۔ یہ بھی میں نے نہیں کہا۔ او یہی تو اہلحدیث کو شرف ہے۔ وہ مثال بھی دیتا ہے تو یا قرآن سے دیتا ہے یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے دیتا ہے۔ سنو! یہ بھی میں نے نہیں کہا۔ یہ بھی میرے آقا نے کہا کل بدعتہ ضلالتہ وفی روایتہ کل ضلالتہ فی النار دنیا میں کھوٹا سکہ چلانے والا جیل میں جائے گا۔ دین میں کھوٹا سکہ چلانے والا جہنم میں جائے گا۔ آؤ۔ آج مسئلے سارے صاف کرتا جاؤں گا۔ انشاء اللہ … سن لو بات! آج مسئلہ انشاء اللہ صاف کر کے جاؤں گا کیوں یزدانی صاحب! آج سمجھ کے جانا ایں ناں۔ اج جماعت ایتھے کرانی ایں۔ جماعت تسی کرانی ایں تے تکبیر حافظ عبد اللہ صاحب نے کہنی ایں تے یاراں نے پرے ہو کے چمٹے وجانے نے۔ اپنا اپنا مسلک ہے ناں۔ کسی کو رب نے چمٹے دئیے کسی کو رب نے یہ قرآن دیا ہے۔ ہائے! یہ اپنا اپنا نصیبا۔ یہ اپنی اپنی قسمت۔ او کسی کو رب نے چمٹے دئیے‘ کسی کو چھریاں اور چاقو دئیے اور جس سے پیار تھا اس کو اپنا قرآن دیا یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان دیا ہے۔ اپنی اپنی قسمت ہے۔ تم اپنے نصیبے