کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 213
تبدیل کر لو۔ ذرا پاس تو آؤ ذرا ہم سے کچھ سنو تو سہی۔ کچھ ہم سے کہا ہوتا کچھ ہم سے سنا ہوتا دور بیٹھ کے تیر چلاتے اور معاویہ کو گالیاں دیتے ہو۔ بولو جس کا متقدی حسین جیسا آدمی ہے وہ امام کیسا ہو گا؟ کبھی سوچا ہے؟ اور تونے اپنی روائتی بے وفائی کی طرح توڑنے کی طرف بلایا۔ حسین نے بیعت توڑنے سے انکار کر دیا۔ فامتنع الحسین حسین نے کہا میں جیتے جی معاویہ کا عہد توڑنے کے لئے تیار نہیں۔ سن ۵ ھ میں امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہو گیا۔ ذرا یاد کر لینا بات کو اگر یاد کر لو گے تو قیامت تک پھر ہمارے پاس پھنس جاؤ گے۔ مرضی ہے یاد کرو۔ مرضی ہے نہ کرو۔ ہم تو اپنی بات سنائیں گے۔ وَ مَا عَلَیْنَآ اِلَّا الْبَلَغُ الْمُبِیْنُ (سورۃ یس: ۱۷) ہمارے آقا کو بھی رب نے یہی کہا۔ ہمارا کام سنانا رب کا کام منوانا۔ ہم سناتے ہیں رب سے دعا کرتے ہیں رب تیرے سینے کو حق کے لئے کھول دے۔ اج معلوم ہوندا اے تساں اینی لمی تقریر کروانی ایں سویرے جمعہ دی چھٹی کرنی پئے گی۔ سویرے جمعہ یزدانی صاحب ای پڑھان گے ابھی میں نے آدھی تقریر کھڑے ہو کے کرنی ہے۔ انشاء اللہ جب میں کھڑا ہو جاؤں گا ناں تو سمجھ لینا کہ اب آدھی ہو گئی ہے۔ ماشاء اللہ یہ موحدوں کا جم غفیر اور سن لو تمہیں اپنی ذات کی قدر و قیمت کا احساس نہیں ہے۔ اللہ کی قسم ہے اگر جواں ہوں میری قوم کے جسور و غیور قلندری میری کچھ کم سکندری سے نہیں اگر تم بیدار ہو جاؤ۔ ساری کائنات کی طاقت تم کو نہیں دبا سکتی۔ اس لئے کہ حق تمہارے پاس ہے۔ اور ہم نہیں کہتے بیگانے بھی مانتے ہیں۔ آج جس طرح یہ یار مان رہے ہیں ناں اسی طرح درود پڑھنے والے یار بھی مانتے ہیں۔ اشتہار چھپوایا ہے۔ کہا کیا ہے ؟ کہا ہے ہم درود جو اذان سے پہلے پڑھتے ہیں وہابی اس کے خلاف کوئی دلیل بتلائیں۔ ہم نے کہا پڑھتے تم ہو دلیل ہم بتلائیں ؟ ہائے! کیا عجیب بات ہے