کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 212
ایک ہی حوالہ۔ تم بھی لکھ لو۔ لکھ لو میرے خطیبو لکھو شیخ مفید اس کی کتاب ’’الارشاد‘‘ ص ۲۰۰‘ طبرسی کی ’’اعلام الوری‘‘ اربلی کی ’’کشف الغمہ‘‘ مجلسی کی ’’حیات القلوب‘‘ ابن الصباغ کی ’’الفصول المہمہ‘‘ پانچ کتابیں۔ یہ کتاب ’’الارشاد‘‘ شیخ مفید کی ۴۱ ھ میں حضرت حسن و حسین نے امیر معاویہ کی بیعت کی اور ۴۷ ہجری میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو گیا۔ پھر کیا ہوا ؟ شیخ مفید کی الارشاد ص ۱۔ جب شیعان حیدر کرار نے دیکھا۔ حسن فوت ہو گئے۔ کہا لما مات الحسن علیہ السلام تحرکت الشیعتہ بالعراق و کتبوا الی الحسین علیہ السلام فی خلع معاویتہ والبیعتہ لہ جب حسن کا انتقال ہوا شیعان علی نے… لفظ سن لو۔ کوئی یہ نہ کہے یہ شیعہ شیعہ تم اپنے پاس سے کہہ رہے ہو۔ یہ لفظ بھی شیعہ کا اپنا۔ تحرکت الشیعۃ بالعراق۔ عراق کے شیعہ اور کوفے کے شیعوں نے حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا۔ تیری کتاب۔ اہلحدیث کی کتاب نہیں۔ اہلحدیث کی ایک ہی کتاب تھی جس کو پہلے پڑا۔ ایک ہی آیت یہ قرآن جو محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پہ نازل ہوا۔ اب سارے حوالے تیری کتاب کے۔ کہا تحرکت الشیعتہ بالعراق وکتبوا الی الحسین علیہ السلام لخلع معاویتہ والبیعتہ لہ حسین کو شیعوں نے خط لکھا۔ حسین معاویہ کی بیعت توڑ دو اس کی امامت کا جوا اپنی گردن سے اتار دو۔ مطلب یہ ہے پہلے جوا گردن میں ڈالا ہوا تھا۔ کہا اتار دوبیعت توڑ دو۔ کیوں؟ اس لئے کہ اصل صلح حسن نے کی تھی۔ اب حسن نہیں رہا صلح بھی باقی نہیں رہی۔ یہ بے وفاؤں کی بات ہے اور وفا دار کا جواب کیا ہے؟ ذرا وہ بھی سن لے۔ علی کا بیٹا حسین حسن کا بھائی حسین وفادار ہے۔ کہا فامتنع علیھم و ذکر ان بینہ و بین معاویہ عھدا حسین نے معاویہ کی امامت توڑنے سے انکار کر دیا اور کہا حسین جیتے جی معاویہ کی بیعت کو توڑنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ کس نے لکھا ہے میری جان؟ ادھر آ قریب آجاؤ دل