کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 211
ہوتا جا۔ آجا کہا ’’قم فبایع‘‘ اٹھو بیعت کرو۔ فالتفت الی الحسین کمانڈر نے حسین کی طرف دیکھا۔ سوچا یہ جوان آدمی ہے ذرا کچھ خیال کرے گا۔ فقال یا قیسانہ امامی۔(رجال کشی ص: ۱۰۲) او قیس میری طرف کیا دیکھتے ہو۔ او جس کو میرے بھائی نے امام مانا اس کو میں نے بھی اپنا امام مانا ہے۔ مانو۔ مانا۔ پھر سن )۳ ھ میں امت کا اتفاق ہو گیا۔ کوئی اختلاف باقی نہ رہا۔ کوئی ماں کا لال بتلائے کہ اس زمانے میں ایک آدمی باقی رہا ہو جس نے حسین کے ساتھ حسن کے ساتھ معاویہ کی بیعت نہ کی ہو۔ ایک بتلا دو ایک۔ ابھی تو معاویہ کی بات ہو رہی ہے میں مسئلہ ثابت کروں گا ابو بکر کا۔ او جب معاویہ کی بیعت ثابت ہے تو پھر صدیق کو ماننے سے کیوں انکار ہے؟ تم تو معاویہ کو ماننے پر مجبور ہو۔ حسین کی بات سن لے۔ ’’الارشاد‘‘ شیخ مفید کی صفحہ ۲۰۰۔ سن ۴۷ھ میں حضرت حسن کا انتقال ہوا۔ یہ امام مفید کی لال کتاب نظر آرہی ہے۔ لال کتاب تیرے خون کی طرح۔ ویسے تیرے خون کا رنگ تو سرخ ہے اندر سے سفید ہے۔ سفید نہ ہوتا تو حسین اور حسن کو کیوں چھوڑتا؟ ان کے طریقے کو کیوں چھوڑتا ؟ ص ۲۰۰ کتاب ’’الارشاد‘‘ شیخ مفید کی۔ سن لے اور تو قاصد کے آتے آتے میں خط اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں میری یہ کتاب ’’الشیعۃ و اہل البیت‘‘ عربی زبان میں آج سے تین برس پہلے چھپی ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ چھپ چکی ہے۔ انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔ انڈونیشیا‘ ملائیشیا کی زبان میں فارسی میں تامل میں اور ترکی میں۔ آج تک کسی ماں کے لال کو اس حوالے کا جواب دینے کی جرات نہیں ہو سکی اور نہ ہی قیامت تک ہو سکتی ہے۔ انشاء اللہ