کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 210
کچھ بند کر لو دل بند زبان بند روح بند جسم بند لیکن یاد رکھو سرور کائنات کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی محبت کو دنیا کی کوئی طاقت ہمارے سینوں سے جدا نہیں کر سکتی۔ کیا حسن نے سمجھا ہے کیا عشق نے جانا ہے ہم خاک نشینوں کی ٹھوکر میں زمانہ ہے تم نے کیا سمجھا ہے؟ کیا جانا ہے؟ یہ تیری کتاب رجال کشی اس کا حوالہ۔ یا اپنی کتاب کو آگ لگا دے یا اپنے جھوٹے عقیدے کو آگ لگا دے۔ سن لے تیری کتاب کیا کہتی ہے؟ معاویہ رضی اللہ عنہ کو منبر کے اوپر بٹھایا اور منبر کہاں رکھا؟ مسجد میں اور مسجد کہاں کی؟ کوفے کی اور کس کی؟ حضرت علی کی اور منبر کس کا؟ علی کا۔ مسجد علی رضی اللہ عنہ کی بیٹا علی رضی اللہ عنہ کا‘ منبر بھی علی کا اور اوپر معاویہ بیٹھا ہے۔ کہا کائنات کے لوگو سن لو! میں علی رضی اللہ عنہ کا بیٹا حسن رضی اللہ عنہ معاویہ ضی اللہ عنہ کی بیعت کر رہا ہوں۔ پھر کہا اقد م انت و الحسین واصحاب علی (رجال کشی ص: ۱۰۲) پھر حسین کی طرف دیکھا۔ حسین اٹھو جس کو حسن نے امام مانا تم بھی امام مانو پھر حسین نے مانا۔ پھر کمانڈر انچیف قیس ابن سعد ابن عبادہ کو کہا اٹھو! جس کو ہم نے امام مانا تم بھی اس کو مانو۔ یہ فوجی آدمی تھا۔ فوجی ذرا مشکل ای سمجھدے نیں۔ سمجھدے نیں پر ذرا دیر نال سمجھدے نیں۔ کہا اٹھو بیعت کرو۔ کہنے لگا مجھے نہ ہی مجبور کرو تو اچھا ہے۔ کہا کرو ۔ یہ تیری کتاب کا حوالہ کشی کہتا ہے تیسری صدی ہجری کا گیارہ سو سال پہلے کی کتاب تیری کتاب لکھنے والا بھی تو چھاپنے والا بھی تو حاشیہ چڑھانے والا بھی تو بیچنے والا بھی تو اور پڑھنے والے ہم ہیں۔ بدقسمتی تو یہ ہے پڑھنے والے بھی ہم اور سنانے والے بھی ہم اور تجھ کو کہتے ہیں سنتا جا شرماتا جا یا اپنی عاقبت کو بناتا جا اپنے عقیدے کو تبدیل کرتا جا اور معاویہ کے دامن سے وابستہ