کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 209
جب حضرت عائشہ اس کا باپ صدیق اس کا چچا عمر اس کا داماد عثمان تیرے گریبان میں ہاتھ ڈال کے پوچھے گا۔ اپنی حکومت کے لئے ہماری عزت کو داؤ پر لگاتا رہا۔ جواب کیا دے گا؟
اپنے اقتدار کے لئے اور وہ اقتدار جو کبھی پائیدار نہیں ہوتا۔ ابو الکلام آزاد نے کہا تھا
’’اقتدار یہ گرتی ہوئی دیوار ہے ‘‘
دنیا کا کوئی شخص گرتی ہوئی دیوار کو سہارا نہیں دے سکتا۔ یا ڈھلتی ہوئی چھاؤں کہ کوئی شخص چھاؤں کو پکڑنا چاہے تو پکڑ نہیں سکتا اور آج کل ہائے
اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
ہم سے بگاڑی اندھوں سے یارانہ لگایا۔ پھر نتیجہ؟
ایک صحافی مجھے کہنے لگا۔ اب کے مرتبہ حضرت صاحب آئے۔ چہرے کا رنگ اڑا ہوا تھا جیسے… ہائے ؎
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
ہم نے کہا
اسی باعث تو قتل عاشقاں سے منع کرتے تھے
اب اکیلے پھر رہے ہو یوسف بے کارواں ہو کر
وہی اسمبلی جو خود بنائی تھی۔ اسی اسمبلی نے نیچے سے کرسی کے پاوے کھینچ لئے ہیں اور حضرت صاحب بغیر پاؤں کی کرسی کے اوپر بیٹھے ہوئے معلق ہیں۔ سن لو! یاد رکھو صدیق و فاروق و عثمان سے بے وفائی کرنے والا کبھی رب کی دھرتی پر زیادہ دیر تک حکمران نہیں رہ سکتا۔ وفا کرو وفا تب یہ چراغ جلیں گے۔ تم نے کیا سمجھا ہے۔ ہم کو اذیتیں دو۔ تکلیفیں دو۔ ہم پہ پابندیاں لگاؤ۔ جس شہر میں جاؤ پابندی۔ ہر جگہ پابندی ہی پابندی۔ ہم نے کہا ہم نے بگاڑا کیا ہے؟
کہنے لگے تم اس گئے گزرے دور میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتے ہو۔ ہم نے کہا۔ پھر سن لو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے اصحاب کی عظمت کو گواہ بنا کے کہتا ہوں۔ کائنات کے رب کی قسم ہے سب