کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 205
جونیجو نے اس پر کس طرح اعتبار کر لیا ہے ؟
اعتبار کر کے بے چارہ
پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزت سادات بھی گئی
اور جس پیر کا مرید تھا وہ پیر مرید ہی نہیں مانتا۔ کہتا ہے ہم نے ٹھیکے پر دیا تھا۔ یاروں نے قبضہ کر لیا ہے۔ پیر پگاڑو کہتا ہے ہم نے ٹھیکے پر دیا تھا۔ ان کو پتہ نہیں کہ ٹھیکے پہ دینا کام مشکل ہی ہوتا ہے۔ جنوں ٹھیکے تے چیز دے دیو او چھڈن دا ناں ای نئیں لیندا۔ اور اے صوفی صاحب نے کھتوں چھڈناں اے؟
اے تے اللہ دے فضل و کرم نال جونیجو بے چارہ سیدھا سادھا سندھی بانکا پنجابیاں دے وس پے گیا اے۔ خوش فہمی کتنی ایں۔ کہتا ہے ضیاء الحق سے اختیارات واپس لے لیں گے۔ کبھی شیشے میں چہرہ دیکھا ہے؟ مجھے ایک دوست نے کہا اس کے نام سے شیشے کا نام نہ لیا کرو۔ میں نے کہا کیوں کیا بات ہے؟ کہنے لگا اتنا خوبصورت ہمارا وزیر اعظم ہے جب شیشہ دیکھتا ہے تو شیشے کو دراڑیں پڑ جاتی ہیں۔
تو کہنے لگے
کوفی لا یوفی
ان سے وفا کی امید ؎
ہم کو ان سے وفا کی ہے امید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے
خنجر مارا حسن گرے واپس مدائن میں آئے۔ مرہم پٹی کی گئی۔ معاویہ کو پیغام بھیجا معاویہ صلح کے لئے تیار ہوں۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہما۔ آجاؤ میرے ساتھ صلح کر لو۔ امیر معاویہ نے جواب بھیجا شرائط کیا ہیں؟
کہنے لگے۔ میں تیرے حق میں دستبردار ہونے کے لئے تیار ہوں۔ یہاں سے بات سمجھنا ذرا۔ انشاء اللہ ایک دفعہ سمجھ آگئی پھر قیامت تک دنیا کی کوئی طاقت گمراہ نہیں کر سکتی۔ اور ایک مسئلہ ہی یاد کر لو قیامت تک کوئی بڑے سے بڑا ذاکر بھی اس چکر سے باہر نہیں نکل سکتا کہو تو سہی ذرا باہر نکل کر دکھائے۔ عقیدہ یہ ہے جوکہ میرے بیٹے (ابتسام) نے ابھی بیان کیا۔ اس کے لئے دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ اسے حق آگاہ‘ حق آشنا‘ حق کا داعی اور حق کا علمبردار بنائے۔ ہم نے تو اللہ کے فضل سے اپنے رب کے دین کے لئے اپنے آقا کے دین کے لئے اپنی اولاد کو وقف کر رکھا ہے۔ اللہ قبول فرمائے۔
سن لو ذرا بات۔ کوئی بات یاد کر لو۔ قیامت تک یاد رکھنا اور جس کو پوچھو اس کو کہو حضرت جی جواب ذرا سیدھا سادھا دو۔ چونکہ چنانچہ اگرچہ مگرچہ نہ لگاؤ۔ سیدھی سیدھی