کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 204
کشتوں کے پشتے لگا دیں گے اسد علی و فی الحروب نعامتہ باتوں میں شیر اور جنگ میں بھیڑ یہ ضیاء الحق کی حکومت ہے۔ ضیاء الحق کی مارشل لاء اتنی نازک بی بی ہے جس کا جو چاہے کر جائے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آبگینے کو ٹھیس نہ لگ جائے۔ جناب جنرل صاحب! اگر حکومت نہیں ہو سکتی تو گھر جا کے آرام سے بیٹھو۔ یہ پاپڑ بیلنے کی ضرورت کیا ہے ؟ یہ بھی آگئے ہیں مطالبہ لے کر۔ ان کی تاریخ میں کہیں جدوجہد نہیں ہے۔ اگر یہ قربانیاں دینے والے ہوتے تو حسین کربلا میں شہید نہ ہوتا حسن اپنی خلافت سے دست بردار نہ ہوتا۔ یہ مرنے والے کہاں سے آئے؟ سنو! کہنے لگے مر جائیں گے۔ حضرت حسن نے کہا کوئی بات نہیں۔ ہاتھ کنگن کو آر سی کیا صبح میدان جنگ میں اپنے جوہر دکھا کے بھی دیکھ لو۔ میں صلح نہیں کرتا۔ صبح گئے۔ صفیں آراستہ ہوئیں۔ ادھر سے معاویہ کا لشکر بھی نکلا ادھر سے حسن کا بھی نکلا۔ دونوں طرف سے لشکر ایک دوسرے کے مقابل صف آراء ہوئے۔ ابھی حضرت حسن اپنی صفوں کا معائنہ کر رہے ہیں کہ ایک شیعہ اٹھا۔ کون اٹھا؟ شیعہ اٹھا ۔ حضرت حسن کا ساتھی اٹھا۔ پشت سے خنجر کا وار کیا۔ نبی کے نواسے کی کمر سے نکلتا ہوا خنجر پوری ران کو پھاڑتا ہوا نکل گیا۔ بے وفائی ان کی دیکھا چاہئے اسی لئے تو کسی نے کہا تھا ’’الکوفی لا یوفی‘‘ اسی طرح جس طرح پنجاب میں کہتے ہیں ارائیں کسے دا نہیں سائیں ہم نے کبھی ارائیوں کو یہ بات نہیں کی۔ سارے ہمارے اہلحدیث دوست ہیں۔ لیکن جب سے ضیاء الحق ارائیں دیکھا ہے ہمیں اس بات پر بھی یقین آگیا ہے اور پتہ نہیں