کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 203
فابد لنی بہم خیرا منہم وابد لہم بی شرا منی اللھم مث قلوبھم کما یماث الملح فی الماء۔(نہج البلاغہ ص: ۶۷) اللہ ان پر تیری لعنتیں۔ میں تجھ سے دعا کرتا ہوں ان پر اپنا عذاب نازل کر۔ ان کو اس طرح پگھلا دے جس طرح پانی میں نمک پگھل جاتا ہے۔ یہ ساتھی؟ باپ نے کہا ہوا تھا باپ یاد آیا۔ امام مانتے ہیں۔ امام معصوم مصلے پہ بیٹھا ہے۔ صلح کی بات کی۔ وہی شیعوں میں سے ایک آگے بڑھا۔ اس نے نیچے پڑا ہوا مصلہ نیچے سے کھینچ لیا اور کہنے لگا یا مذ ل المومنین تو امیر المومنین نہیں تو مذلل المسلمین ہے۔ الارشاد شیخ مفید کی اعلام الورای طبرسی کی فی حالات الامام المجتبی الحسن شیخ مفید لکھتا ہے مصلہ نیچے سے کھینچ لیا اور کہنے لگے تو امیر المومنین نہیں مومنوں کو ذلیل کرنے والا ہے تو مذلل المومنین ہے۔ حسن نے دیکھا کہا میں نے ذلت کی بات کیا کی؟ کہنے لگے تو معاویہ سے صلح کرتا ہے۔ ہائے حسن نے جواب دیا جس کے ساتھی تم جیسے ہوں گے وہ صلح نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟ ایسے بے وفااور تاریخی الفاظ کہے۔ اسی مفید نے لکھا اسی طبرسی نے لکھا اربلی نے کشف الغمہ میں لکھا ملا باقر مجلسی نے حیات القلوب میں لکھا۔ حضرت حسن نے کہا مجھے ڈر ہے اگر میں جنگ کے لئے نکلوں تم برادران یوسف ہو۔ مجھے عین معرکہ میں پکڑو گے اور معاویہ کے پاس فروخت کر دو گے۔ دو باتیں ہوں گی۔ یا معاویہ مجھ کو احسان کر کے چھوڑ دے گا یا میری گردن اڑا دے گا۔ اگر گردن اڑا دی تو رسول کا نواسہ مارا جائے گا۔ اگر احسان کر کے چھوڑ دیا تو قیامت تک میں اس کے احسان کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔ اس لئے بہتر ہے کہ میں عزت کے ساتھ صلح کر لوں۔ کہنے لگے نہیں۔ ہم صلح کے لئے تیار نہیں۔ ہم