کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 198
کو معلوم ہوا کہ میرے شیعہ میرے ساتھ وہی سلوک کرنے والے ہیں جو انہوں نے میرے باپ کے ساتھ کیا تھا۔ حضرت حسن بڑے پریشان ہوئے اب کیا کیا جائے۔ سوچا کہ سرگروہان لشکر کو اکٹھا کر کے ان سے مشورہ کیا جائے کہ کیا کہتے ہیں؟ آپ نے انہیں بلوایا۔ کہنے لگے ہم لڑنے مرنے کے لئے تیار ہیں۔ حضرت حسن نے کہا کل پھر پوری طرح تیار ہو کر باہر نکلنا۔ چنانچہ انہوں نے صبح ہونے کا بھی انتظار نہ کیا اور رات ہی رات حضرت امیر معاویہ کے پاس پہنچ گئے۔ کہنے لگے اگر ہم حسن کو گرفتار کر کے تیرے سامنے لے آئیں تو کیا انعام دے گا؟ حضرت حسن کو ان کی بے وفائی کا علم ہوا۔ جب جاسوسوں نے اطلاع دی کہ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے فرمانے لگے میں وہ کام کروں گا جس کی خوشخبری اور پیشین گوئی میرے نانا نے آج سے ۳۵ برس پہلے مجھ کو دی تھی اور کیا کہا تھا ؟ کائنات کا امام خطبہ دے رہا تھا۔ حسن چھوٹے تھے۔ گھر سے بھاگے ہوئے نکلے۔ اپنے نانا کی آواز سنی۔ مسجد کی طرف دوڑے۔ اصحاب کا مجمع بیٹھا ہوا تھا۔ سرور کائنات نے دیکھا۔ نواسہ بھاگا ہوا آرہا ہے۔ پاؤں کو ٹھوکر لگی۔ نبی اکرم نے خطبہ کو درمیان میں چھوڑا نیچے اتر آئے۔ حسن کو اپنی گود میں اٹھایا لے کے منبر کی طرف چلے۔ لوگوں نے تعجب کیا اللہ کے حبیب نے خطبہ درمیان میں چھوڑ دیا؟ آپ نے فرمایا ان ابنی ھذ ا سید لوگو! تم کو کیا معلوم ہے کہ ابھی ابھی جبرائیل نے مجھ کو آکے کہا ہے کہ اے نبی یہ تیرا بیٹا سردار ہے۔ کیوں سردار ہے؟ لڑے گا؟ جنگ کرے گا؟ نہیں۔ اس لئے سردار ہے لیصلح اللّٰه علی یدیہ بین طائفتین عظیمتین من المسلمین اس لئے سردار ہے کہ اللہ اس کے ہاتھ پہ مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان