کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 197
اردن ان سارے ملکوں کا گورنر امیر معاویہ تھا اور کوئی یہ نہ کہے کہ عثمان نے ان کو گورنر مقرر کیا تھا۔ اسے گورنر اس نے مقرر کیا اور اس نے برقرار رکھا تھا جس نے دو برس سے زیادہ کبھی کسی گورنر کو برقرار نہیں رکھا۔ فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔ تیسرا یہ رشتہ تھا کہ میری مملکت کا سربراہ مارا گیا۔ اس کے کمانڈر ہونے کی حیثیت سے میرا یہ فریضہ ہے کہ اس کے خون بہا کا مطالبہ کروں ۔ پانچ برس تک سن ۳۵ ھ آخر ۳۶‘۳۷‘۳۸‘۳۹ اور ۴۰ ھ پانچ برس تک امیر معاویہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے درمیان جنگیں ہوتی رہیں۔ ان کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک منصوبے کے تحت شہید کر دئیے گئے جو ان لوگوں نے بنایا تھا جو کہ حضرت علی کے پرانے شیعہ تھے حضرت علی کے پرانے ساتھی خارجی تھے جو اس دن حضرت علی کا ساتھ چھوڑ گئے تھے جب حضرت علی نے جنگ صفین میں مسئلہ تحکیم کو تسلیم کر کے جناب ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جناب عمرو ابن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو فیصل تسلیم کیا۔ انہوں نے منصوبہ بنایا کہ ملک میں سارے فساد کی جڑ تین آدمی ہیں۔ ایک حضرت علی معاذ اللہ۔ دوسرے حضرت معاویہ معاذ اللہ تیسرے حضرت عمرو ابن العاص معاذ اللہ کہا فیصلہ کرو ان تینوں کو مٹا دیا جائے۔ ایک دن مقرر ہوا۔ تین آدمی تیار ہوئے۔ خنجروں کو زہر کا پانی پلایا۔ مقررہ دن کے لئے وقت مقرر کر کے نماز فجر کے بعد ان تینوں پر حملہ کرنا ہے۔ کیونکہ یہ تینوں حکمران ہونے کے باوجود نماز خود پڑھایا کرتے تھے۔ او ضیاء الحق! کوئی جا کے اس کو بتلا دے۔ امیر المومنین وہ ہوتا ہے جو نماز خود پڑھائے اور جس کو پڑھنی بھی نہ آئے وہ امیر المومنین نہیں ہو سکتا اور سب کچھ ہو سکتا ہے۔ تینوں گئے۔ خدا کی قدرت اس رات جو مقرر تھی حضرت عمرو ابن العاص اپنے گھر سے آئے ہی نہیں بیمار ہو گئے۔ حضرت معاویہ نکلے۔ رات کے اندھیرے میں اس نے وار کیا وار اوچھا پڑا۔ حضرت معاویہ کی کمر کو چھوتا ہوا خنجر باہر نکل گیا ۔ ادھر حضرت علی کوفہ میں آئے۔ اس نے وار کیا۔ حضرت علی پہ وار کاری پڑا۔ حضرت علی شہید ہو گئے۔ حضرت حسن خلیفہ ہوئے۔ یہاں سے قصہ چلتا ہے یہاں سے بات کا آغاز ہوتا ہے۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے رفقاء کے کہنے پر حضرت امیر معاویہ کے خلاف لڑنے کے لئے کوفہ سے نکلے۔ مدائن میں پہنچے جو کوفہ سے تقریبا ڈیڑھ پونے دو سو میل کے فاصلے پر ہے۔ وہاں حضرت حسن