کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 196
پڑھنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ وہ عثمان رضی اللہ عنہ اس کے بارے میں ام المومنین نے سنا۔ خچر پہ مشکیزہ ڈالا۔ پانی لے کر عثمان کے گھر کی طرف چلیں۔ یہ داماد بھی تھا۔ ظالمو قصے کہانیاں سننے والو! میر انیس اور دبیر کے افسانوں سے واقعات کربلا کو زینت بخشنے والو آؤ! تاریخ کے حقائق کے نقاب کو الٹو۔ ام المومنین نبی کی بیوی مومنوں کی ماں عثمان کے گھر پانی لے کے جاتی ہے۔ ظالموں کو پتہ چلتا ہے۔ ایک تلوار کا وار کر کے مشک پھاڑ دیتا ہے۔ دوسرا خچر کو نیزہ مارتا ہے۔ ام المومنین کی چادر بھی ان کے کندھوں سے گر جاتی ہے۔ خبر ملی آج ام المومنین پانی لے کر آرہی تھیں۔ ظالموں نے نہیں پہنچنے دیا۔ عثمان نے جواب دیا بیوی غم نہ کرو۔ آج بھی روزہ نیت سے ہی افطار کر لیں گے۔ چالیس دن بیت گئے۔ چالیس دن‘ عثمان کیا کروں۔ مجھ سے تیرے چہرے کی زردی دیکھی نہیں جاتی۔ تاجدار بطحا کا ساتھی جس کو سرور کائنات نے احد کے پہاڑ پر کھڑے ہو کر جنت کی بشارت عطا کی تھی اور کہا تھا عثمان غم نہ کرو۔ میری امت میں سے جو دو بڑے شہید ہوں گے ان میں سے ایک تو ہو گا۔ اسکن یا احد فان علیک نبیا و صد یقا و شہید ین اے احد تھم جا۔ ایک نبی ایک صدیق اور دو شہید تجھ پہ کھڑے ہیں۔ فرمایا نائلہ! غم نہ کرو۔ ابھی ابھی قرآن پڑھتے ہوئے میری آنکھ لگ گئی۔ میں نے دیکھا کائنات کا تاجدار آیا۔ پوچھا عثمان کیا حال ہے؟ یں نے کہا یا رسول اللہ کئی دن سے نیت سے ہی روزہ رکھا ہوا ہے۔ نہ کھانے کے لئے کچھ ہے نہ پینے کے لئے کچھ ہے۔ فرمایا! عثمان۔ غم نہ کرو۔ آج روزہ ہمارے ساتھ افطار کرنا۔ ظالم دیواریں پھاند کر آئے اور کیسے آئے؟ اس کا تذکرہ بھی تیری کتابوں سے کروں گا۔ کون کون آیا اور پہرے پر کون کون کھڑا تھا۔ اس کا تذکرہ بھی کرتا ہوں۔ ذرا سنتے تو جاؤ۔ وہ عثمان اس مظلومیت کے ساتھ مارا گیا۔ شہید ہوا۔ اس کے دو رشتے معاویہ کے ساتھ تھے اور ایک تیسرا رشتہ بھی تھا اور وہ یہ تھا کہ امیر معاویہ عثمان کے گورنروں میں سے سب سے بڑا گورنر تھا۔ ملک شام‘ لبنان‘ فلسطین‘