کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 195
واقعہ کو بیان کرتا کائنات کے رب کی قسم ہے آسمان بھی روتا زمین بھی روتی۔ یہاں دس دن کی پیاس کی بات کرتے ہو اور وہ دس دن جو دنیا کی کسی تاریخ سے ثابت نہیں ہیں۔ صبح دم حسین کا قافلہ آیا ظہر کی نماز کے بعد کٹ گیا۔ اتنی سی بات تھی۔ یہ تمہیں یاد رہا لیکن تمہیں وہ یاد نہیں جو چالیس دن تک اپنے گھر میں بھوکا اور پیاسا رکھا گیا اور جو دن ڈھلے اپنی بیوی سے سوال کرتا۔ بیوی کھانے کے لئے کچھ ہے کہ میں نے روزہ رکھا ہوا ہے؟ بیوی آنکھوں میں آنسو لا کے کہتی آقا! آج گھر میں پینے کے لئے بھی کچھ نہیں ہے۔ وہ کنواں جو تونے خرید کے وقف کیا تھا آج اس کنویں سے پانی لانا ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ آج پینے کے لئے پانی بھی نہیں ہے۔ فرماتے نائلہ غم نہ کرو۔ اللہ نیتوں کو جانتا ہے۔ ہم نے نیت سے روزہ افطار کر لیا ہے۔ ام المومنین سلام اللہ علیہا کو پتہ چلا کہ سرورکائنات کا یار رسول کا ساتھی پیغمبر کا محبوب وہ محبوب کہ جس کے لئے پیغمبر کے دل میں اتنا احترام تھا کہ ایک دفعہ لوگوں نے اس کی شہادت کی جھوٹی افواہ اڑا دی۔ وہ مجسم رحمت جس کی پیشانی پہ کبھی غضب کا پسینہ نہیں آیا شکنیں پڑ گئیں۔ کہا کعبے کے رب کی قسم ہے میرے عثمان کو شہید کرنے والو جب تک ایک ایک سے بدلہ نہیں لے لیتا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) واپس نہیں جائے گا۔ وہ عثمان جس کا اتنا احترام تھا کہ ایک دفعہ ترمذی شریف کی حدیث ہے ایک آدمی نے کہا یا رسول اللہ! ایک مسلمان مر گیا ہے جنازہ پڑھ دیجئے۔ کائنات کے امام نے کہا اچھا چلیں۔ صحابہ آپ کے جلو میں چلے پہنچے۔ کہا کس کا جنازہ ہے؟ کہا فلاں ابن فلاں کا۔ وہ رحمت عالم جو عبد اللہ ابن ابی کا جنازہ پڑھنے کے لئے تیار ہو گئے تھے۔ جس نے نبی کو گالی دی اور اللہ نے اس کی گالی کو قرآن میں درج کیا۔ اس نے کہا تھا لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْہَا الْاَذَ لَّ۔(سورۃ المنافقون: ۸) نبی اس کا جنازہ پڑھنے کے لئے تیار ہو گئے۔ وہ رحمت مجسم‘ پوچھا کس کا جنازہ ہے؟ کہا فلاں ابن فلاں کا۔ کہا اس کا جنازہ اٹھا لو۔ لوگوں نے تعجب سے کہا یا رسول اللہ کیا بات ہے؟ فرمایا یہ میرے عثمان کو برا کہتا تھا اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) عثمان رضی اللہ عنہ کو برا کہنے والے کا جنازہ