کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 193
بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ ذرا میرے ساتھ چلتے جانا۔ کچھ لمحات کے لئے اپنے دل اور دماغ کو میرے حوالے کر دینا تاکہ میں تمہارے لوح قلب پہ واقعات کو ثبت کرتا چلوں کہ گردش لیل و نہار پھر ان واقعات کو تمہارے دل سے مٹا نہ سکے اور اگر یہ واقعات تمہارے دل پہ ثبت ہو گئے تو قیامت کے دن اور کچھ نہ ہو گا‘ اپنے اسی دل کو رب کے سامنے پیش کر دینا رب تمہیں جنت عطا کر دے گا۔ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سن گیارہ ہجری بارہ ربیع الاول کو ہوئی۔ آپ کے بعد امت کے انتظام کو چلانے کے لئے آپ کے اصحاب کرام نے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو اپنا امام منتخب کیا۔ اس کے ثبوت میں حوالے تیری کتابوں سے آج پیش کروں گا۔ لیکن پہلے مجمل طور پر معاملے کو سمجھ لے۔ پھر سن تیرہ ہجری میں حضرت ابو بکر کی وفات ہوئی اور صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے صحابہ رضی اللہ عنہ کے مشورے سے نبی پاک کی مسجد اقدس میں اپنی چارپائی رکھوا کر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف سے خلافت کا امیدوار نامزد کیا۔ سارے صحابہ نے فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی امیدواری کو امامت میں تبدیل کیا۔ آپ کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اس کے بعد چوبیس ہجری کو یکم محرم کے دن یا انتیس ذی الحج کو تئیس ہجری میں حضرت فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی ۔ چھ آدمی خلافت کے لئے نامزد کئے گئے۔ چار خود بخود دستبردار ہو گئے۔ عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان مقابلہ ہوا۔ اہل حل و عقد نے حضرت عثمان کو ترجیح دیتے ہوئے حضرت عثمان کے ہاتھ پہ بیعت کی ۔سن ۲۴ ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت ہوئی اور امت نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا امام اور خلیفہ منتخب کیا۔ سن چالیس ہجری میں شوال کے مہینے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ حضرت علی کے بعد ان کے رفقاء نے حضرت حسن کو اپنا امیر اور اپنا امام منتخب کیا۔ سن اکتالیس ہجری میں ربیع الاول میں دوسری روایت کے مطابق جمادی الاولی میں حضرت حسن حضرت امیر معاویہ سے لڑنے کے لئے نکلے۔ میں نے بات کو بہت آگے بڑھا دیا ہے پھر پلٹ کے آؤں گا۔ لیکن یہاں سے مسئلے کا آغاز ہوتا ہے۔ اکتالیس ہجری میں جناب حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے