کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 192
تو دوستو میں تمہید میں آج وقت کو ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ پوچھتا ہوں کہ اییاران تیز گام شیش محلوں میں کھڑے ہو کر اپنے سینوں کو پیٹ کر نام لیتے ہوئے تمہارے لبوں پر صدیق و فاروق کا عثمان و طلحہ و زبیر کا نام کیوں آتا ہے؟ سرور کائنات کے اصحاب کو دشنام کیوں دیتے ہو؟ ان کے خلاف بری باتیں کیوں کہتے ہو؟ ان کا تعلق کیا ہے؟ حسین کے کربلا میں کھڑے ہونے سے کربلا میں بلائے جانے سے کربلا میں بلا کر بے یار و مدد گار چھوڑ دینے سے ان کا تعلق کیا ہے؟ ان کو کیوں اپنی گفتار اور سخت لفظ نہیں کہنا چاہتا لیکن کیا کروں کیوں گردش مدام سے گھبرا نہ جائے دل انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہوں میں اور بدقسمتی سے عربی زبان اور ادب کا طالب علم بھی ہوں اور ہر زبان اس کا ادب اس کی ثقافت اور اس کی تہذیب اپنے قاری پر اپنا اثر ڈالے بغیر نہیں رہتی۔ تو میں جب تمہاری اس قسم کی نوازشات کو دیکھتا ہوں تو بے اختیار عربی کے ایک حماسی شاعر کا شعر یاد آجاتا ہے الا لا یجھلن احد علینا فنجھل فوق جھل الجاھلین لیکن اس کے باوجود اپنی زبان کو روکے ہوئے اپنے دل کو سمجھاتے ہوئے اور عقل کو اور سرور کائنات کے طریقے کو اس پر غالب کرتے ہوئے یہی کہتا ہوں کہ کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا لیکن آجا ۔۔ گالیوں کے علاوہ کبھی دلیل سے بات کرنا بھی سیکھ لے۔ سن تو سہی کہ تیرے مذہب کی اپنی کتابیں کیا کہتی اور تجھ کو کیا آئینہ دکھاتی اور ان کے بارے میں تیرے آئمہ کا کیا نقطہ نظر بیان کرتی ہیں؟ بات سیدھی سادھی ہے کہ سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سن ۱۱ ہجری