کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 191
اگر واقعہ کربلا کا ذکر کرتے ہوئے ان لوگوں کا تذکرہ کیا جاتا جنہوں نے حسین کی شہادت میں حصہ لیا حسین کو کوفے بلا کر دھوکہ دیا حسین کے بھائی کو دغا دیا حسین کو کربلا کے میدان میں بے یار و مدد گار چھوڑا تو بات سمجھ میں آسکتی تھی۔ لیکن حیرت ہے کہ ان میں سے تو کسی کا نام نہیں لیا جاتا یا لیا جاتا ہے تو برسبیل تذکرہ لیا جاتا ہے۔ لیکن سب سے پہلے نشانہ مشق ستم بنایا جاتا ہے تو صدیق اکبر کو پھر فاروق اعظم کو پھر عثمان ذوالنورین کو پھر عشرہ مبشرہ کو پھر دیگر اصحاب کرام کو اور کوئی ٹوکنے والا نہیں ٹوکتا کوئی روکنے والا نہیں روکتا کوئی اس بات پہ نکیر نہیں کرتا کہ بھلے مانسو گفتگو کرتے ہوئے ادب و آداب کو تو ملحوظ رکھو اور پھر اس کے ردعمل کے طور پر اگر ہمارا کوئی جوان ساتھی اور نوجوان خطیب تلخ گفتگوکرتا ہے تو پھر شیش محلوں میں بیٹھنے والوں کی پیشانیوں پہ شکنیں پڑ جاتی ہیں۔ حالانکہ نہیں جانتے کہ ہر روز کسی غریب اور کمزور کو بھی چھیڑا جائے تو تنگ آکر وہ بھی کوئی نہ کوئی بات منہ سے نکال ہی دیتا ہے۔ جب کہ رب نے اس کو اس کی اجازت بھی دی ہے کہ لَایُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مِنْ ظُلِمَ،(سورۃ النساء: ۱۴۸) لیکن میں انشاء اللہ اپنی ساری گفتگو میں یاروں کی اس شرینی گفتار کے باوصف کوئی تلخ بات نہیں کہوں گا۔ اس لئے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں ان کی روش مبارک ہو ہمیں سرور کائنات کی سنت مبارک ہو۔ ہم اس نبی کے ماننے والے ہیں کہ جس کو طائف کی بستی میں لہو لہان کر کے پھینک دیا گیا۔ اس کا چہرئہ پر انوار آسمان کی طرف اٹھا ہوا تھا۔ وہ نگاہیں جن نگاہوں کے عرش کی طرف اٹھنے کی وجہ سے قبلہ تبدیل ہو گیا۔ وہ نگاہیں عرش معلی کی طرف اٹھیں‘ آسمان سے پہاڑوں پر مامور فرشتہ اترا۔ کائنات کے امام ان ظالموں نے تجھ پہ ظلم کیا۔ اجازت دیجئے کہ ان ظالموں کو ان پہاڑوں میں بسنے والے ظالموں کو پہاڑوں میں پیس کے رکھ دوں۔ اس رحمت مجسم نے پلٹ کے دیکھا۔ فرمایا جاؤ پلٹ جاؤ ۔ اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو انتقام لینے کے لئے نہیں بلکہ ہدایت کی راہ دکھانے کے لئے بھیجا گیا ہے۔ میں انتقام لینے کے لئے نہیں آیا۔