کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 19
’’ جو ضیاء الحق کا یار ہے وہ کھڑا رہے اور جو اسلام اور جمہوریت کا وفادار ہے وہ بیٹھ جائے آپ کے یہ کہنے کی دیر تھی کہ بدنظمی خود بخود ختم ہو گئی اور جلسہ میں سکون ہو گیا۔ اسی طرح بکھرے ہوئے جلسے کو کنٹرول کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔ آپ جب مائک پر آتے تو حاضرین ہمہ تن گوش ہو جاتے۔ مجمع ایسے معلوم ہوتا جیسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ عموما آپ کی تقریر پروگرام کے آخر میں ہوتی تھی اور مجبورا ہوتی تھی کیونکہ آپ کی تقریر کے بعد مجمع جم کر بیٹھتا ہی نہ تھا اور لوگ اٹھنا شروع ہو جاتے۔ کچھ اس کتاب کے بارے میں یہ جنوری ۱۹۹۲ء کی بات ہے جب میں نے خطبات کو مرتب کرنے کا پروگرام بنایا۔ میرا خیال تھا کہ یہ کام کوئی بہت زیادہ دشوار نہ ہو گا لیکن جب میں نے کام شروع کیا تو مجھے اس کی دشواریوں کا اندازہ ہو گیا۔ یہ کام میرے لئے ایک لحاظ سے بہت آسان تھا کہ اگر میں خطبات کی ترتیب میں صحت کا التزام نہ رکھتا جس طرح کہ ان لوگوں نے کیا جنہوں نے اس سے پہلے اکا دکا تقریریں پمفلٹوں کی شکلوں میں طبع کی تھیں۔ جب میں نے ان تقریروں کا جو چھپ چکی تھیں تقابل اصل تقریروں سے کیا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ کئی کئی جملے جو آپ نے دوران خطبہ ارشاد فرمائے تھے نہ لکھے گئے اور لکھنے والے حضرات نے بھی دوران خطبہ کئی مقامات پر اپنا خطابت کا شوق پورا کرنے کی کوشش کی۔ میں نے حتی الامکان یہی کوشش کی ہے کہ غلطیوں سے بچا جا سکے لیکن اس کے باوجود بعض مقامات پر کمپوزنگ کی غلطیاں رہ گئی ہیں جو انشاء اللہ آئندہ ایڈیشن میں درست کر لی جائیں گی۔ مجھے یقین ہے کہ یہ خطبات یقینا لوگوں کے عقائد اعمال اور اخلاق کو سنوارنے کا سبب بنیں گے۔ اس کے علاوہ ان خطبات سے دشمنان صحابہ کے مقابلہ کے لئے لوگوں کو ایسے حقائق کا علم ہو گا جن کا جواب کسی شخص کے پاس نہیں ہے۔ ابھی میں نے اپنے کام کا آغاز کیا ہی تھا کہ انہی دنوں شہید اسلام حضرت علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمتہ اللہ علیہ کی اہلیہ محترمہ اچانک انتقال فرما گئیں۔ انا للّٰه وانا الیہ راجعون، آج اگر وہ زندہ ہوتیں تو یقینا یہ مجموعہ دیکھ کر بہت خوش ہوتیں۔ میں اس مجموعے کا انتساب