کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 187
نام لینے والو! حسین کے بڑے بھائی حسن کے بیٹے کا نام کیوں نہیں لیتے ؟ حسین کے بھتیجے کا نام کیوں نہیں لیتے ؟ کربلا میں شہید ہونے والا ایک حسن کا بیٹا ابو بکر تھا ایک عمر تھا۔ ان کا نام کیوں نہیں لیتے؟ ابھی تسلی نہیں ہوئی۔ جو شہید ہوا ہے اس کو پوچھو۔ او علی اصغر کا نام لیتے ہو محمد کا نام لیتے ہو او حسین کے جوان بیٹے کا نام کیوں نہیں لیتے جو باپ کے سامنے تیر کھاتا ہوا مرا۔ جس کا نام عمر ابن حسین تھا۔ حسین کا بیٹا عمر۔ کیوں نہیں نام لیتے؟ اپنی مسجدوں میں اپنے امام بارگاہوں میں ہمارے بڑوں کا نام نہ لکھو اپنے بڑوں کا تو لکھو اور کتاب؟ کتاب تمہاری۔ کوئی ماں کا لال اٹھے کہے ہماری کتاب میں نہیں ہے۔ یا اس کتاب کو جلائے یا عمر کی صداقت کا‘ رفعت کا‘ جلالت کا‘ عظمت کا اور علی رضی اللہ عنہ کے اس سے پیار کا اعتراف کرے۔ اپنے گھر والوں سے پوچھو۔ یہ اہل بیت جن کو تم اہل بیت کہتے ہو انہوں نے اپنے بیٹوں کے نام ان کے نام پہ کیوں رکھے تھے ؟ میں پوچھ پوچھ کے تھک گیا ہوں۔ میں نے ملتان میں پوچھا مظفر گڑھ جا کے پوچھا ڈیرہ غازی خاں میں پوچھا پشاور میں پوچھا لاہور میں پوچھا کوئی جواب نہیں دیا۔ ایک نے جواب دیا مظفر گڑھ سے آیا تھا کہنے لگا نام علی نے اس لئے رکھے کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ نام برے نہیں ہوتے۔ میں نے کہا نام برے نہیں ہوتے ؟ کہنے لگا ہاں۔ میں نے کہا حسن نے کیوں اپنے بیٹوں کے نام رکھے ؟ کہنے لگا اس نے بھی اسی لئے رکھے تھے۔ میں نے کہا حسین نے کہنے لگا حسین نے کسی بیٹے کا نام نہیں رکھا۔ میں نے کہا حسین نے بیٹے کا نام بھی عمر رکھا پوتے کا نام بھی عمر رکھا۔ اٹھا الارشاد شیخ مفید کی اٹھا جلاء العیون ملا باقر مجلسی کی۔ دنیا کے نسب ناموں کی کوئی تاریخ اٹھاؤ شیعہ کی لکھی ہوئی ہو جہاں حسین کا ذکر آئے گا اس کے بیٹے کا نام عمر آئے گا۔ اس کے پوتے کا نام عمر آئے گا۔ کہنے لگا میں پوچھ کے بتلاؤں گا اور میں خط کا