کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 186
لوگوں کو پٹوانے کے لئے بھی نہیں کہتے۔ اپنی چھاتی عزیز ہے تو لوگوں کی کیوں برباد کریں؟ آؤ پوچھو علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ سے۔ جاؤ کسی مولوی کو کہو یہ جو شہدائے کربلا میں غیروں کے بیٹوں کے نام لیتے ہو محمد ابن عوسجہ عمرو ابن عوسجہ شمر ذی الجوشن یہ کہاں کے رہنے والے ہیں ؟[1] شمر کا نام فلاں کا نام اور پھر چچا کے بیٹوں کا نام محمد ابن عون جعفر ابن عون پھر عباس کا نام لیتے ہو پھر مسلم کا نام لیتے ہو۔ او ان سب سے دوستی علی سے دشمنی کیا ہے؟ علی کے بیٹوں کا نام کیوں نہیں لیتے؟ جاؤ واقعہ شہادت کی کوئی شیعہ تاریخ اٹھا کے دکھاؤ۔ اس میں سب سے پہلے حسین پہ جس نے اپنی جان نچھاور کی تھی وہ علی کا بیٹا ابو بکر تھا دوسرا جس نے اپنی جان قربان کی تھی اس کا نام عمر تھا۔ کس کا بیٹا؟ علی کا بیٹا۔ تیسرا جس نے جان قربان کی تھی اس کا نام عثمان تھا۔ کس کا بیٹا؟ علی کا۔ ان کا نام کیوں نہیں لیتے ؟ کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے کیوں چھپاتے ہو ؟ او لوگوں کے بیٹوں کا نام لیتے ہو کہ حسین کے ساتھ قربان ہوئے علی کے بیٹوں کا نام کیوں نہیں لیتے؟ جانتے ہیں علی رضی اللہ عنہ کے بیٹوں کا نام آئے گا تو ابو بکر آئے گا علی کے بیٹوں کا نام آئے گا تو عمر آئے گا علی کے بیٹوں کا نام آئے گا تو عثمان آئے گا اور سناؤں بات۔ او عوسجہ کے بیٹوں کا
[1] کربلا کے مقام پر جو لوگ شہید ہوئے‘ ان کی اجتماعی قبر حضرت حسین کی آخری آرام گاہ کے ساتھ ہی ایک کونے میں ہے۔ اسے گنج شہیداں کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہاں مدفون افراد میں سے چار افراد ایسے ہیں جن کے نام یزید ہیں۔ (۱) یزید بن الحصین الھمدانی۔ (۲) یزید بن زیاد بن مہطر الکندی (۳) یزید بن ثبیط العبدی (۴) یزید بن مغفل الجعفی۔ مارچ ۲۰۰۰ء میں جب میں عراق اور اردن کے سفر پر گیا تو کربلا جانے کا موقع بھی ملا۔ وہاں میں نے یہ نام پڑھے تھے۔ کربلا کے دو شہید ایسے تھے جن کا نام عمر تھا اور وہ اہل بیت میں سے نہیں تھے۔ ۱۔ عمر بن جندب الحضرمی ۔ ۲۔ عمر بن ضبیعہ الضبیعی