کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 185
سے گھوڑا آیا ہے وہاں جھکو پھر جہاں سے گیا ہے وہاں جھکو پھر کعبے میں جاؤ گے تو کیا منہ لے کے جاؤ گے؟ پھر کہاں کہاں جھکو گے ؟ او کائنات کے رب کی قسم بڑے گنہگار ہیں‘ بڑے خطار کار ہیں‘ اپنے گناہوں کو دیکھتے ہیں‘حیا آتی ہے لیکن اے رب! تیری بارگاہ میں آئیں گے کوئی نامہ اعمال میں روشنی نہیں ہوگی۔ ایک بات تو تن کے کہہ سکیں گے اللہ دیکھ گنہگار جتنے چاہے ہوں لیکن تیری کبریائی کی قسم ہے دنیا میں کسی کبریا کے سامنے نہیں جھکے۔ اتنی تو بات ہے اور وہ حوض کوثر والا کوثر پہ بیٹھا ہوا ہو گا۔ کہیں گے آقا! تو جو جی چاہے سلوک کرے لیکن کائنات نے بڑے آقا بنائے ہم نے تیرے سوا کسی کی طرف پلٹ کے دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ گنہگار بہت ہیں خطا کار بہت ہیں لیکن نہ تیری کبریائی میں فرق آنے دیا نہ مدینے والے تیری مصطفائی میں فرق آنے دیا۔ امامت مانی تو تیری خدائی مانی تو تیری۔ نہ ضیاء الحق کی مانی۔ ناراض ہو جائیں کہ ہم انتخاب کی بات کرتے ہیں۔ ہمارا عقیدہ انتخاب ہے۔ میں کہنا ہاں کہ ایہہ وچارے رپورٹر آئے نیں ایہنا واسطے وی تے کوئی مصالحہ ہونا چاہی دا اے ناں‘ ایہہ ایویں ای خالی کتاباں ناں لے کے چلے جان میں یہ کہہ رہا تھا ہمارے اوپر ساری کائنات ناراض ہو جائے اللہ کی قسم پرواہ نہیں ہے۔ صدر مشیر وزیر تھانیدار تو ہوتا ہی اچھا آدمی ہوتا ہے بے چارہ۔ ویسے اک گل یاد رکھو۔ آئی جی نال لڑ لیا کرو۔ تھانیدار نال نہ لڑیا کرو۔ ایہہ قریب دا آدمی اے ایہہ کول جو رہندا اے۔ کیا ہیں ہم؟ کعبے کے رب کی قسم ہے‘ یہی ایک بڑا فخر ہے کہ اللہ نے اس گھرانے میں پیدا کیا کہ جس گھرانے میں پیدا ہونے والے کے چھوٹے سے دل میں رب کے سوا کسی کا خوف ہوتا ہی نہیں۔ کیا کریں اب نہیں ہے تو کیسے ڈریں ؟ ڈرامہ تو ہمیں کرنا نہیں آتا۔ لوگ تو ڈرامہ کر کے بھی ڈر لیتے ہیں۔ اور بات آگئی ہے۔ مولوی زبیر ہمارا یار ہے۔ کہتا ہے پیٹنے کی بات کرو میں کہتا ہوں اگر پیٹنا ثواب ہوتا تو مولوی زیادہ پیٹتا۔ ایمان کی بات ہے کہ نہیں؟ اگر چھریاں مارنا ثواب ہوتا تو مولوی تلواریں مارتا۔ اگر یہ کام ثواب کا ہے تو مولوی کیوں نہیں کرتا؟ مولوی نے تو ڈیڑھ سو روپے گز والے کپڑے کی شیروانی پہنی ہوتی ہے۔ لوگ ننگے پاؤں ننگے جسم پیٹ رہے ہوتے ہیں۔ او خدا کے بندے اگر پیٹنا ثواب ہے تو تیری چھاتی کیسے سلامت ہے؟ کیا لوگوں کو بیوقوف بناتے ہو ؟ ہم سے سنو۔ ہم لوگوں کو وہی کہتے ہیں جو خود کرتے ہیں۔ ہم خود پیٹنا نہیں جانتے