کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 184
گئی ہے؟ کیوں لڑتے ہو یار؟ حق کی بات تو اکیلے ہم بھائی مل کے کر رہے ہیں۔ او لڑکا نیچے سے وارنا کیا بات ہے۔ کائنات کے رب کی قسم ہزار گھوڑے ہوں ہم اپنے لڑکے پر اس کو وارنا گوارا نہیں کرتے۔ گھوڑوں کے سموں کے نیچے تم خود لیٹتے ہو اگر گھوڑا کسی نے نکال لیا ہے تو پھر گناہ کیا کیا ہے؟ دودھ تم پلاتے ہو رونق تم بناتے ہو برا ان کو کہتے ہو۔ ہم کو یہ بات معلوم نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں دینے والا نہ گھوڑا نہ گھوڑے والا بات سیدھی ہے۔ جب تم ذرا نیچے آگئے پھر اور نیچے چلے جاؤ۔ سلامت وہی رہے گا کہ گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے جس نے ایک دروازے پر جھکالی۔ وہ سو دروازے پر سے بھی جھکا لیتا ہے اور ہم سے کائنات کیوں ناراض ہے ؟ یہ مشیری یہ وزیری کوئی ہم سے زیادہ بڑی ہے؟ لوگوں نے ان دیواروں کو نہیں دیکھا جن دیواروں کو ہم پھلانگ کے چڑھ کے آئے ہیں۔ کیا ہے۔ اگر علم کی بنیاد پہ یہ چیزیں ملتیں تو ہمارے پاؤں کے تلوے کے نیچے ہوتیں لیکن ان میں سر کو جھکانا پڑتا ہے۔ ہم نے جھکانا نہیں کٹانا سیکھا ہے۔ نام حسین کا لیتے ہو جھک ہر جگہ جاتے ہو۔ وہی رہے گا جو کہیں نہ جھکا ہو۔ نہ دربار پہ جھکا نہ خانقاہ پہ جھکا نہ وزیر کے سامنے جھکا نہ مشیر کے سامنے جھکا نہ مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کے سامنے جھکا نہ صدر کے سامنے جھکا نہ ولی کے سامنے جھکا جھکا تو رب کائنات کے سامنے جھکا اور جو وہاں جھکا دنیا کی کوئی طاقت پھر اس کو جھکا نہیں سکتی۔ جھکنے کا کیا ہے۔ یہ ہمارا دوست تھانیدار ہے آدمی اس کو دیکھ کے جھک جائے۔ ٹھیک ہے کہ نہیں۔ تھانیدار کے آگے جھکو ڈی ایس پی کے آگے رکوع میں جاؤ ایس پی کے آگے سجدے میں جاؤاور آئی جی آئے تو لیٹ جاؤ۔ پھر یہی بات ہے۔ پھر گھوڑے کے آگے جھکو گھوڑے والے کے آگے جھکو پھر گھوڑے والے کے والے کے آگے جھکو پھر جہاں