کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 183
والے نے پوچھا اس کا نام کیا ہے؟ کہا جو ترتیب رب نے رکھی ہے علی نے بھی وہی رکھی ہے اس کا نام عثمان رضی اللہ عنہ رکھ دیا ہے۔ جاؤ کوئی ماں کا لاڈلہ لاؤ چاہے پگڑی سیاہ ہو چاہے چہرہ سیاہ ہو چاہے کرتہ سیاہ ہو چاہے دل سیاہ ہو۔ کوئی لاؤ۔ خدا کی قسم آنکھیں ترس گئی ہیں۔ کوئی ماں کا لال آئے تو سہی۔ سامنے کھڑا ہو کے کہے تو سہی مولوی تو جھوٹ بولتا ہے۔ کہے تو سہی۔ ماں نے وہ بیٹا نہیں جنا جو علی رضی اللہ عنہ کے تین بیٹوں کے نام ابو بکر و عمر وعثمان کا انکار کرنے کی جرات کر سکے۔ ابھی ماں نے بیٹا نہیں جنا اور یارو انصاف کی بات کرنا۔ اپنے گھروں پہ علی کے پڑپوتوں کے نام تو لکھ دئیے ہیں علی کے بیٹوں کا نام لکھتے ہوئے کیا تکلیف ہوتی ہے؟ او چلو ہمارے صدیق کا نام نہ لکھو ہمارے فاروق کا نام نہ لکھو ہمارے ذوالنورین کا نام نہ لکھو۔ اپنے علی کے تینوں بیٹوں کا نام تو لکھ دو۔ لکھو تو سہی۔ کتاب تیری اور آگے چلو۔ شہدائے کربلا کا ذکر کرتے ہو حیا کرو اور اس کو کہتے ہیں اہل بیت۔ زور لگانے کی ضرورت کیا ہے۔اہل بیت کون تھے؟ تمہارے ہی تھے ہم نے تم کو مانا ہے۔ تم بتلاؤ اگر اہل بیت سے محبت کرنے والے ہو اگر علی کی اولاد کو ماننے والے ہو شہدائے کربلا میں عوسجہ کے بیٹے محمد کا نام لیتے ہو۔ او مرثئے سننے والے سنیو! تم بھی میرے بھائی ہو لیکن ناراض نہ ہونا۔ لکیر پیٹتے ہو سانپ نکل جانے کے بعد۔ ان پیٹنے والوں کو خام مال کس نے مہیا کیا ہے؟ تم بھی مرثئے پڑھتے ہو وہ بھی مرثئے پڑھتے ہیں۔ فرق کیا ہے؟ آؤ فرق کرو۔ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری اولاد نبی کے صحابہ سے محبت کرنے والی ہو ان کو حق سناؤ۔ کچی روٹی پکی روٹی پڑھ کے مولوی آتا ہے۔ وہی بھیروی وہ گاتا ہے وہی وہ گاتے ہیں پھر آدمی نقل کے پاس کیوں جائے اصل کے پاس کیوں نہ جائے؟ او سنتے ہو کہ نہیں۔ ہم برے سہی ہم نابکار سہی ہمیں گالی دے لو تم بھی دے لو تمہارا بھی دل ٹھنڈا ہو جائے۔ ہم کچھ نہیں کہتے لیکن کبھی یہ بھی سنا ہے کہ وہابیوں کی کوئی بہو بیٹی بھی تعزیہ دیکھنے گئی ہے ؟ بتلاؤ کبھی سنا ہے کہ وہابیوں کی بہو بیٹی بھی کبھی گھوڑے کے نیچے سے لڑکا گزارنے