کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 182
کوئی ایک عنوان ہو تو بات کروں۔ رب کعبہ کی قسم ہے مارا پھر رسوا کیا۔ کوئی اپنی بہن کا کوئی اپنی ماں کا سر بازار نام لینا گوارا کرتا ہے ؟ تم نے حسین کو کیا جانا تم نے نبی کے خانوادے کو کیا سمجھا ہے کہ ان ناپاک زبانوں سے ان کی بہو بیٹیوں کا نام لیتے ہو؟ خدا کا قہر ٹوٹ پڑے گا کہ اس مقدس گھرانے کا نام لینے سے پہلے باوضو تو ہو کے آؤ۔ بازاروں میں نام لیتے ہو۔ تم نے کیا سمجھا ہے ؟ کوئی خدا کا خوف کرو۔ ہم کو گالی دینے کے لئے ان پاکبازوں کے ناموں کو بازاروں میں لانے کی کیا ضرورت ہے ؟ گالی دیتے ہو ؟ دے لو گالی۔ کوئی ایک بات ہو تو کہوں تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم سن لو گھر والوں سے سن لو جن کو تم اہل بیت کہتے ہو۔ ہم نے کبھی نہیں سنا کہ داماد بھی کبھی اہل بیت میں شامل ہوا ہے۔ ہم نے کبھی سنا ہی نہیں۔ او لوگو اس جگہ کے رہنے والو بتلاؤ ارائیں اگر اپنی بیٹی جاٹوں کو دے دے تو جاٹ داماد وہ ارائیں بن جائے گا؟ یہ ہوگا بیٹی کی اولاد جاٹ بن جائے گی۔ یہ بھی کبھی ہوا ہے کہ جس کو بیٹی دی ہو وہ گھر کا بن جائے۔ یہ کبھی نہیں ہوا۔ الٹی بات ہے۔ اگر اہل بیت میں داماد شامل ہے تو جاؤ اپنی کسی کتاب سے یہ نکال کے تو دکھلاؤ کہ مرنے والے کی وراثت داماد کو بھی ملتی ہے۔ اپنی کسی کتاب سے دکھاؤ۔ دکھاؤ تو سہی۔ مسئلے بنا لئے ہیں۔ تم نے کہا اہل بیت تھا میں نے کہا چلو تمہاری بات مان لیتے ہیں۔ تم نے کہا ہم نے مان لیا۔ اس اہل بیت سے پوچھو تو سہی اس کا پہلوں کے بارے میں نقطہ نگاہ کیا تھا؟ پہلا بیٹا ہوا نام رکھا محمد۔ بڑا ہو کے مشہور ہوا محمد ابن حنفیہ۔ محمد ابن علی۔ حنفیہ اس کی ماں کا نام تھا۔ دوسرا بیٹا ہوا لوگوں نے کہا مبارک ہو خدا نے بیٹا دیا۔ نام کس کا رکھ رہے ہو؟ کہا نام اس کا رکھ رہا ہوں جو نبی کا یار غار تھا۔ ابو بکر ۔ تیسرا بیٹا ہوا مبارک ہو۔ کس کے نام پہ نام رکھو گے؟ کہا ابو بکر کے بعد اگر نام رکھا جا سکتا ہے تو عمر رضی اللہ عنہ ہی رکھا جا سکتا ہے۔ چوتھا بیٹا ہوا۔ پوچھنے