کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 181
کوفے کی عورتوں کو روتے ہوئے سنا کوفے کے مردوں کو زنجیر زن دیکھا دیکھا پیٹ رہے ہیں۔ زین العابدین بیمار نے نظر اٹھائی۔ کبھی بیمار کربلا کا تذکرہ ان سے سنتے ہو کبھی ہم سے بھی سنو۔ آؤ ہم تمہیں بتلائیں کہ بیمار کربلا نے کیا کہا تھا؟
بیمار کربلا نے آنکھ کھولی کوفے کے ارض و سما کو دیکھا کوفے کے در و دیوار کو دیکھا۔ اپنی آنکھوں کو بند کر لیا۔ بہن بولی بھیا آنکھیں کیوں نہیں کھولتا ؟
کہنے لگا مجھے کوفے کے در و دیوار سے بے وفائی کی آواز آرہی ہے ۔ کوفہ ؟ کوفہ کو یہ کہا۔ کوفے والوں کو کیا کہا ؟ کوفے والے بھی روتے ہوئے آئے کوفے والیاں بھی پیٹتی ہوئی آئیں۔ کہا بیمار کربلا ہائے حسین۔ اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیں ۔ کہا میرے سامنے میرے با با کا نام نہ لو۔ کہا کیوں نہ لیں؟
کہا کوفے والو اگر روتے تم ہو تو مجھے یہ بتلاؤ میرے بابا کو مارا کس نے ہے ؟
خود مارتے ہو خود روتے ہو۔
وَ جَآئُ وْ ٓاَبَاھُمْ عِشَائً یَّبْکُوْنَ۔(سورۃ یوسف: ۱۶)
قرآن کی آیت یاد آگئی کہ جھوٹے ہمیشہ رویا ہی کرتے ہیں۔ زینب نبی کی بیٹی کے بارے میں قصے بنائے ہوئے ہیں۔ حیا کرو۔ نبی کی بیٹی اور بے صبری ؟
نبی کی بیٹی اور کہتے ہو اس نے بال بکھیر لئے‘ اس نے اپنا آنچل پھاڑ لیا‘ اس نے اپنے دامن کو چاک کر لیا۔ حیا کرو۔ تمہیں پتہ نہیں یہ کس گھرانے کی بیٹی ہے ؟
یہ اس گھرانے کی بیٹی ہے جس کی دادی نے اپنے کٹے ہوئے بھائی کی لاش پہ کھڑے ہو کے کہا تھا چشم کائنات تو مجھے روتا ہوا نہیں دیکھے گی۔ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے والی ہوں۔ دنیا مجھے روتا ہوا نہ دیکھے۔ بھائی کی لاش پڑی ہے لیکن اس پہ کھڑی مسکرا رہی ہوں کیونکہ دنیا کی بہنیں آئیں گی اپنے بھائیوں کے سر لے کے اور میں آؤں گی اپنے بھائی کے جسم کا انگ انگ لے کے۔ نبی کا گھرانہ ؟ تم نے نبی کے گھرانے کو کس طرح رسوا کیا۔ کوئی ایک بات ہو تو کہوں۔ میں نے اسی قسم کے موضوع پہ گفتگو کرتے ہوئے گوجرانوالہ میں کہا تھا کہ
دامان باغبان سے کف گل فروش تک
بکھرے پڑے ہیں سینکڑوں عنوان میرے لئے