کتاب: خطبات شہید اسلام علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمۃ اللہ علیہ - صفحہ 18
مبنی تھا۔ تحریک ختم نبوت کا بادشاہی مسجد میں جلسہ عام تھا۔ لوگوں کا تاحد نگاہ ہجوم تھا۔ اس جلسے کی صدارت کے فرائض مولانا یوسف بنوری انجام دے رہے تھے اور مولانا مودودی تقریر کر رہے تھے۔ اس دوران مفتی محمود صاحب جلسہ گاہ میں آئے تو ان کے حامیوں نے مودودی صاحب کی تقریر سننے کی بجائے مفتی محمود کا پرجوش استقبال شروع کر دیا۔ بس پھر کیا تھا۔ جلسہ ہنگامہ آرائی کا شکار ہو گیا کسی کے کنٹرول میں نہ رہا۔ ایسے موقع پر علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید نے سٹیج سیکرٹری سے مائک خود سنبھال لیا اور اپنی خطابت کی سحر آفرینی سے ڈیڑھ دو منٹ میں اس طرح جلسہ کو کنٹرول کر لیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ کچھ اسی طرح کا واقعہ ۱۹۸۴ء میں ایم آر ڈی کے جلسہ موچی دروازہ میں بھی پیش آیا۔ وہاں پر بھی جلسہ ہنگامہ آرائی کا شکار ہو چکا تھا۔ ایسے وقت میں علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید نے ڈائس پر ملک قاسم سے مائک خود حاصل کیا اور صرف یہی لفظ کہے